کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 688
پھر ان کے نانان سے روایت کرنے میں کون سی امتیازی بات ہے؛ سوائے اس کے کہ اس کی حفاظت کا پورا اہتمام اور رعایت کی جائے۔ بلا شک و شبہ جو کوئی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابہت زیادہ اہتمام اور خیال کرنے والا ہو؛ اور اس کے حصول میں مشغول رہتا ہو؛ وہ دوسروں کی نسبت زیادہ بڑا عالم ہوتا ہے۔
یہ ان حضرات کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ بلکہ دوسرے لوگوں میں ایسے حضرات بھی ہیں جوبنی ہاشم کے اکثر لوگوں سے بڑھ کر سنت کے عالم ہیں ۔امام زہری رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ ؛ آپ کے احوال و اقوال اور افعال کے حضرت ابو جعفر محمد بن علی رحمہ اللہ سے بڑے عالم تھے؛ اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ اوریہ دونوں حضرات معاصر تھے۔
جب کہ موسی بن جعفر اور علی بن موسی اور محمدبن علی رحمہم اللہ ؛ توعلم کی معمولی سی شد بد رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ حضرت مالک بن انس ؛ حماد بن زید اور حماد بن سلمہ؛ لیث بن سعد ؛ اوزاعی؛ یحی بن سعید ؛ وکیع بن جراح اور عبداللہ بن مبارک؛ امام شافعی ؛ احمد بن حنبل؛ اسحق بن راہویہ ؛ رحمہم اللہ اور ان کے امثال و ہنمواء ان حضرات سے بڑے عالم تھے۔
اس کی گواہی ان احادیث و آثار سے ملتی ہے جو دیکھے اور سنے جاسکتے ہیں ۔جیسا کہ آثار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں اہل ایمان نے بہت بڑا جہاد کیا؛ اور انہیں فتوحات حاصل ہوئیں ۔اور آپ کفارو منافقین کی بیخ کنی اور سرکوبی پر حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہماکی نسبت زیادہ قادر تھے۔
اور اس کی مزید وضاحت اس چیز سے ہوتی ہے کہ ان حضرات نے سند کے ساتھ جو احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کئے ہیں ؛ وہ اس سے کئی گنا بڑھ کر ہیں جو ان دوسرے لوگوں نے روایت کئے ہیں ۔
پس کسی مدعی کا یہ دعوی کرلینا کہ ان حضرات میں سے کسی ایک نے جو بھی فتوی دیا ہے؛ وہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے موجود ہے؛ تو یہ ان حضرات پر بہت بڑا جھوٹ ہے۔ رضی اللہ عنہم ۔۔ اس لیے کہ یہ حضرات اپنے اقوال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول مرویات کے مابین فرق کیا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’ جب میں تم سے کوئی حدیث بیان کرتا ہوں ؛ تو اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے آپ پر جھوٹ بولنے سے یہ بات زیادہ بہتر لگتی ہے کہ میں آسمان سے زمین پر گرجاؤں ۔اور جب میں تم سے اپنے اور تمہارے درمیان کوئی بات کروں ؛تو بیشک جنگ دھوکہ ہوتی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ آپ آج ایک بات کہتے؛ اور کل اس سے رجوع کر لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مابین بھی مسائل میں ایسے ہی اختلاف تھا جیسے دوسروں کے ہاں ہوتا ہے۔ اور آپ سے مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں ؛ جیسے دوسرے لوگوں سے نقل کئے جاتے ہیں ۔ شیعہ اور اہل سنت کی کتابیں ان مختلف روایات سے بھر پور ہیں ۔