کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 687
احادیث امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اوردیگرحضرات نے روایت کی ہیں ۔ اس لیے کہ یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے میں سچائی میں معروف تھے۔
درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دین کی حفاظت کے لیے بندو بست تھا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی جان بوجھ کر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بولا کرتا ہے؛ اگر کسی نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا پردہ چاک کردیا؛ اور اس کا معاملہ طشت ازبام کرکے رکھ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ اگر رات کے اندھیرے میں سحری کے وقت کو ئی انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کا ارادہ بھی کرلیتا تو صبح کو لوگ کہتے: فلاں انسان کذاب ہے۔ تابعین کرام رحمہم اللہ مدینہ طیبہ؛ مکرمہ ؛ شام ؛ بصرہ اور دیگر علاقوں میں ان میں سے بہت ہی کم کسی کا جھوٹا ہونا معلوم تھا۔ لیکن غلطی سے کوئی بشر معصوم نہیں ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ: ان میں ایسے حضرات بھی ہیں جو کہ ضعیف ہیں ۔ اور کچھ ایسے ہیں جن پر ان جیسے دوسرے علماء نے کلام بھی کیا ہے۔ اہل علم میں ایسے لوگ ہیں جو اپنے حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے غلطی کر جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں ۔ مگر کوئی بھی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا ۔[1]
جہاں تک آپ کے دو صاحبزادوں حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا تعلق ہے؛ تو انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا؛ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو وہ دونوں ابھی بچے تھے؛ سمجھ کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی روایت بہت کم ہے۔ اور باقی تمام اثناعشریہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا۔پس کسی کہنے والے کا یہ کہنا کہ :انہوں نے اپنے نانا سے روایت کی؛اگر اس سے مراد یہ ہو کہ جو کچھ ان کے نانا نے کہا ہے؛ وہ ان کی طرف وحی کیا گیا؛ تو یہ نبوت کا دعوی ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کی طرف وحی آتی تھی۔ یہ بات تو انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی کے لیے نہیں ہوسکتی۔
اگر اس کی مراد یہ ہے کہ : انہوں نے دوسروں سے سنا؛ تو پھر یہ ممکن ہے کہ کسی ایسے غیر سے بات سنی گئی ہو جس نے ان حضرات سے احادیث سنی ہوں ؛ خواہ ان کا تعلق بنو ہاشم سے ہو یا کسی دوسرے سے ۔ تو
[1] رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:’’ لا تقطع الأیدِی فِی السفرِ۔‘‘ولولا ذلِک لقطعتہ. والحدِیث فِی: سننِ التِرمِذِیِ 3؍5 ؛ کتاب الحدودِ، باب ما جاء أن لا تقطع الأیدِی فِی الغزوِ؛ وقال التِرمِذِی: ہذا حدِیث غرِیب، وقد رواہ غیر ابنِ لہِیعۃ بِہذا الِإسنادِ نحو ہذا. والحدِیث عن بسر فِی: سننِ النسائِیِ 8؍84 ؛ ِکتاب قطعِ السارِقِ، باب القطعِ فِی السفرِ؛ ولفظہ: ’’ لا تقطع الأیدِی فِی السفرِ‘‘. وصحح اللبانِی الحدِیث فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ" 6؍168. ورو ہذا الحدِیث أحمد فِی مسندِہِ ؛ ط. الحلبِیِ 4؍181. ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’اﷲ کی قسم!آسمان سے زمین پر گر پڑنا میرے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں اور جب میں باہمی امور پر گفتگو کروں گا تو لڑائی میں فریب دہی کی اجازت ہے۔‘‘یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک بات کہہ کر اس سے رجوع کر لیا کرتے تھے، چنانچہ کتب شیعہ ائمہ سے نقل کردہ مختلف روایات سے لبریز ہیں ۔ ]] مسند احمد(۱؍۱۳۱) صحیح بخاری کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام (ح:۳۶۱۱)، صحیح مسلم کتاب الزکاۃ۔ باب التحریض علی قتل الخوارج (ح :۱۰۶۶)۔