کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 686
اسی طرح ابو جعفر محمد بن علی حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے حج والی طویل حدیث روایت کرتے ہیں ۔یہ اس باب میں روایت کردہ سب سے بہترین حدیث ہے۔اور انہی کی سند سے امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت جعفر سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے۔ ٭ دوسرا جواب یہ ہے کہ معصومین میں سے سن رشد و تمیز میں صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے میں آپ ثقہ اور صادق ہیں ۔جیسا کہ آپ جیسے دوسرے صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے میں ثقہ اور صادق ہیں ۔الحمد للہ کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام آپ سے حدیث روایت کرنے میں تمام لوگوں سے بڑھ کر سچے ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس نے جان بوجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا ہو۔ حالانکہ ان میں سے کئی ایک سے غلطیاں ہوئی ہیں ؛ ان سے گناہ بھی ہوئے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ معصوم نہیں تھے۔اس کے باوجود اہل فن اوراہل امتحان ناقدین نے یقیناً آزمایا؛ اوراصول حدیث کے مطابق ان کی جانچ پرکھ کی؛ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا ہو۔ بخلاف دوسری صدی کے؛ بلاشک و شبہ اس دور میں کوفہ میں ایسے لوگوں کی ایک جماعت موجود تھی جو جان بوجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالاتفاق اہل فقہ اور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں ۔ حتی کہ وہ لوگ جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے متنفر بھی تھے؛ جب آپ ان کے سامنے مدینہ کے منبر پر کوئی حدیث بیان کرتے ؛ تو وہ کہا کرتے تھے: ’’حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان پر کوئی تہمت نہیں لگائی جاسکتی ۔‘‘ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ ۳؍۴۱۳ پر آپ کے حالات زندگی میں تحریر کیا ہے؛اور آپ سے روایت کرنے والوں میں صحابہ میں سے : حضرت ابن عباس وجرِیر البجلِی ومعاوِیۃ بن خدِیج والسائِب بن زید وعبد اللہِ بن زبیر والنعمان بن بشِیر وغیرہم شامل ہیں ۔ حتی کہ حضرت بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ [1]؛ ان کے بارے جو باتیں معروف ہیں ؛ اس کے باوجود ان کی دو
[1] تک پہنچ جاتی ہے اور شیاطین کان لگا کر سنتے ہیں تو اس ستارے سے انہیں مارا جاتا ہے، پھر یہ اپنے دوستوں [یعنی غیب کی خبروں کے دعویداروں ] کو آکر بتاتے ہیں ۔ پھر وہ جو بات اسی طرح بتاتے ہیں تو وہ صحیح ہوتی ہے لیکن وہ تحریف بھی کرتے ہیں اور اس میں اضافہ بھی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [صحیح مسلم ؛ ۴؍ ۱۷۵۰۔ کتاب السلام ؛ باب تحریم الکہانۃ؛سنن ترمذی ۵؍ ۴۰]۔  بسر بن ارطاۃ کا پورا نام عمیر بن عویمر بن عمران ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی سماعت کے بارے میں اختلاف ہے۔ آپ حضرت امیر معاویہ کے سالاروں میں سے ایک تھے۔ آپ بصرہ کے گورنر تھے؛ اور یمن کا علاقہ بھی آپ کی عملداری میں شامل تھا۔ آپ کی وفات سن ۸۶ہجری میں ہوئی۔جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے تو ان کی تخریج آمدہ سطور میں دیکھیں : روی أبو داود فِی السننِ 4؍200 ؛ کتاب الحدودِ، باب فِی الرجلِ یسرِق فِی الغزوِۃ أیقطع؟ : عن جنادۃ أبِی أمیۃ قال: کنا مع بسرِ بنِ أرطاۃ فِی البحرِ، فأُتِیَ بِسارِق یقال لہ مِصْدرٌ قد سرق بختِیۃً، فقال: سمِعت(