کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 685
ائمہ شیعہ معصومین اور حصول علم دین: [اشکال]:.... شیعہ کہتے ہیں کہ: ’’شیعہ نے فروعی احکام ائمہ معصومین نے اخذ کئے ہیں جنہوں نے اپنے جدا مجد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا تھا....۔‘‘ [جواب]:.... ۱۔اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ: مذکورہ بالا ائمہ نے اپنے جد امجد کا علم علماء سے ایسے ہی حاصل کیا تھاجیسے باقی تمام مسلمان علماء سے علم حاصل کرتے چلے آئے ہیں ۔ ان سے براہ راست استفادہ نہیں کیا۔ یہ بات ایک خبر متواتر کی طرح معروف و مسلم ہے۔ مثلاً علی بن حسین ؛ابان بن عثمان سے اور وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا یرِث المسلِم الکافِر ولا الکافِر المسلِم۔))[1] ’’ کوئی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں بن سکتا اور نہ ہی کافر مسلمان کا وارث بن سکتا ہے۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: (( من أعتق رقبۃ مؤمِنۃ أعتق اللّٰہ تعالیٰ بِکلِ عضوٍ مِنہا عضوًا مِن النارِ حتی فرجہ بِفرجِہ۔)) [2] أخرجاہ فِی الصحِیحینِ۔ ’’ جو کوئی کسی مؤمن کو آزادی دیتا ہے ؛ تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتے ہیں ؛ حتی کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماانصار کے ایک فرد سے روایت کرتے ہیں : ’’ایک ستارہ ٹوٹا جس سے روشنی ہوگئی۔‘‘ [3]
[1] الحدِیث رواہ عن أسامۃ بنِ زید رضی اللّٰہ عنہ البخاری فِی ثلاثِ مواضِع:۲؍۱۴۷۔ِکتاب الحجِ، باب تورِیثِ دورِ مکۃ۔۵؍۱۴۷کتاب المغازِی، باب أین رکز النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الرایۃ یوم الفتح۔ ۸؍۱۵۶۔کتاب الفرائِضِ، باب لا یرِث الکافِر المسلِم . وہو مروِی أیضا فِی مسلِم۳؍۱۲۳۳؛ أول کِتابِ الفرائِض . وفِی سندِ الحدِیثِ فِی ہذِہِ المواضِعِ جمِیعا: عن علِیِ بنِ الحسینِ عن عمرِو بنِ عثمان عن أسامۃ بنِ زید. وعمرو بن عثمان ہو شقِیق أبان، وانظر طبقاتِ ابنِ سعد: ۱؍۱۵۱۔والحدِیث فِی سننِ أبِی داؤد ۳؍۲۸۶۔ِکتاب الفرائِضِ،سنن ابن ماجہ ۲؍۹۱۱۔ِکتاب الفرائِضِ: باب مِیراثِ أہلِ الإِسلامِ مِن أہلِ الکفرِ۔ [2] الحدِیث عن أبِی ہریرۃ رضی اللہ عنہ فِی: البخاری 3؍144 کتاب العِتقِ، باب ما جاء فِی العِتقِ وفضلِہِ؛ مسلِم 2؍1147 ؛ کتاب العِتقِ، باب فضلِ العِتق . والحدِیث فِی: سننِ التِرمِذِیِ 3؍49 ؛ کتاب النذورِ، باب فِی ثوابِ من عتق رقبۃ۔ [3] یہ پوری حدیث یوں ہے : کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک ستارہ ٹوٹا جس سے روشنی ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ زمانہ جاہلیت میں اگر ایسا ہوتا تھا تو کیا کہتے تھے؟ عرض کیا گیا ہم کہتے تھے کہ یا تو کوئی بڑا آدمی مرے گا یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں ٹوٹتا بلکہ ہمارا رب اگر کوئی حکم دیتا ہے تو حاملین عرش [فرشتے]تسبیح کرتے ہیں پھر اس آسمان والے فرشتے جو اس کے قریب ہے۔ پھر جو اس کے قریب ہیں ۔ یہاں تک کہ تسبیح کا شور اس آسمان تک پہنچتا ہے۔ پھر چھٹے آسمان والے فرشتے ساتویں آسمان والوں سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ انہیں بتاتے ہیں اور پھر ہر نیچے والے اوپر والوں سے پوچھتے ہیں یہاں تک کہ وہ خبر آسمان دنیا والوں (