کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 683
ان سے ہم کلام بھی ہوتے ہیں ۔ اور کبھی ان کے سامنے بھی آتے ہیں ۔ او ربعض اوقات ان کی کچھ ضرورتیں بھی پوری کرتے ہیں ۔ اور کبھی ایسے مقامات پر چیختے ہیں ؛اور ان زنجیروں کو ہلاتے ہیں جن میں قندیلیں بندھی ہوئی ہوتی ہیں ۔ اور کبھی بعض قندیلوں کو بجھا بھی دیتے ہیں ۔ اور کبھی اس طرح کے دوسرے ایسے کام بھی کرتے ہیں جیسے کام عرب میں بتوں کے پجاری کیا کرتے تھے۔ اور آج کل ایسی حرکتیں ترکستان ؛ چین اورسوڈان کے بتوں کے ساتھ کر رہے ہیں ۔ تو [جاہل لوگ] یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ تو قبروالا میت ہی ہے؛ یا پھر فرشتے کو اس کی صورت میں بنادیا گیا ہے۔ حقیقت میں وہ شیطان ہوتا ہے جو ان شرک دھندوں پر لگا کر انہیں گمراہ کرتا ہے۔ جیسا کہ ان بت پرستوں کے ساتھ پیش آتا ہے جنہوں نے آدمیوں کی صورت میں بت تراش رکھے ہوتے ہیں ۔ یہ باب اپنی جگہ بہت وسیع ہے؛ اس کے احاطہ کا یہ موقع نہیں ہے۔ انبیاء اور ائمہ کی عصمت پر تبصرہ: روافض کہتے ہیں کہ:’’ ائمہ انبیاء علیہم السلام کی طرح گناہوں سے معصوم ہیں ۔‘‘ اس مسئلہ میں روافض منفرد ہیں ؛ کوئی دوسرا ان کا شریک و سہیم نہیں ؛ نہ ہی زیدیہ شیعہ اور نہ ہی مسلمانوں کا کوئی دوسرا فرقہ ۔ صرف وہی لوگ اس ضمن میں ان کے سہیم و شریک ہیں جو ان سے بھی گئے گزرے ہیں ، مثلاً اسماعیلیہ جو محمد بن اسماعیل بن جعفر کی جانب منسوب ہیں جو کہ بنی عبید کو معصوم قرار دیتے ہیں ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جعفر کے بعد امامت محمد بن اسماعیل کا حق تھی نہ کہ موسی بن جعفر کا۔ یہ لوگ منافقین اورملحد ہیں ۔[1]
[1] شیعہ عالم مجلسی لکھتا ہے:’’ جان لو! شیعہ امامیہ کا اتفاق ہے کہ ان کے ائمہ ہر چھوٹے بڑے گناہ سے محفوظ ہیں ۔ ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ نہ عمداً نہ بھول کر، نہ کسی تاویل میں غلطی سے اور نہ ان کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلانے سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے۔‘‘ علامہ مجلسی کہتا ہے :’’بیشک ہمارے اصحاب کا اجماع ہے کہ انبیاء اور ائمہ صلوات اﷲ علیہم ہر چھوٹے بڑے ، عمداً اور سہواً گناہ سے معصوم ہیں ، نبوت اور امامت ملنے سے قبل بھی اور بعد میں بھی۔بلکہ وہ اپنی ولادت سے لے کر اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ملاقات کرنے تک معصوم ہیں ۔ اس مسئلے میں صرف صدوق محمد بن بابویہ اور اس کے استاد ابن الولید قدس اﷲ روحہماکا اختلاف ہے۔ انہوں نے یہ جائز قرار دیا ہے کہ اﷲ کسی نبی یا امام کو کوئی بات بھلا دے۔ وہ سہو جو شیطان کی وجہ سے ہوتا ہے اس کو جائز قرار نہیں دیا۔ اور شائد کہ ان کا اختلاف اجماع کے لئے مضر نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی معروف حسب و نسب والے شیعہ ہیں ۔‘‘ بحار الأنوار: ۱۷؍۱۰۸ (باب سہوہ و نومہ عن الصلاۃ)۔ شیعہ عالم عبداللہ الشبر لکھتا ہے : ’’یہ واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اورمخلوق کے درمیان کوئی واسطہ ضرور ہو؛ خواہ یہ واسطہ نبی کا ہو یا امام کا۔بس انہیں معصوم ہونا چاہیے۔ اس مسئلہ میں امامیہ شیعہ باقی تمام فرقوں سے متفر د ہیں ۔‘‘ [حق الیقین في معرفۃ أصول الدین ۱؍۱۳۵۔ ] خمینی کہتا ہے :’’ائمہ سے سہو کا فقط تصور بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘ [ الحکومۃ الاسلامیۃ: ۹۱۔] ابن بابویہ نے اپنا عقیدہ امامت یوں بیان کیا : ’’بیشک ائمہ معصوم ہیں ، ہر قسم کی غلاظت سے پاک ہیں ، بلا شبہ وہ کوئی چھوٹا بڑا گناہ نہیں کرتے اور نہ اﷲتعالیٰ کے اوامر میں اس کی نافرمانی کرتے ہیں ۔ اور انہیں جو حکم دیا جاتا اس پر عمل کرتے ہیں ۔ جس شخص نے ان کی کسی بھی حالت میں عصمت کی نفی کی تو اس نے انہیں جاہل قرار دیا اور جس نے انہیں جاہل قرار دیا تو وہ کافر ہے۔ ہمارا ان کے متعلق عقیدہ یہ ہے کہ وہ معصوم ہیں ۔ انہیں عصمت میں کمال حاصل ہے۔ انہیں ابتداء سے لے کر انتہا تک کامل علم اور مکمل عصمت (