کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 678
نے انھیں ایمان میں زیادہ کر دیا اور انھوں نے کہا ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ اچھا کار ساز ہے۔‘‘ اورپھر اللہ تعالیٰ نے ان کو بتایا ہے کہ وہ یوں کہا کریں : ﴿ ُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ .... ﴾[التوبۃ۵۹] ’’ جلد ہی اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی۔....۔‘‘ یہ بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیتے ہیں ؛ اور یہ دیناصرف ایک اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کے فضل سے ہوتا ہے؛ اور یوں نہیں کہا: اپنے فضل سے اور اپنے رسول کے فضل سے؛ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا قول ذکر کیا ہے : ﴿إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ﴾[التوبۃ] ’’بیشک ہم اپنے رب کی طرف راغب ہونے والے ہیں ۔‘‘ اور یوں نہیں کہا : ورسولہ ۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاِِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (7) وَاِِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ ﴾[الم نشرح] ’’ تو جب تو فارغ ہو جائے تو محنت کر۔ اور اپنے رب ہی کی طرف پس رغبت کر۔‘‘ اورجو کچھ قرآن میں وارد ہوا ہے کہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے؛ اور صرف اسے پکارا جائے؛ صرف اس سے مدد مانگی جائے؛ اور اس کا خوف رکھا جائے۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ؛ مثلاً فرمان الٰہی ہے : ﴿ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ ﴾[الاحزاب۳۹] ’’ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی ایک سے بھی نہیں ڈرتے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ﴾ (النحل۵۱) ’’اور مجھ سے ہی ڈرتے رہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاِیَّایَ فَارْتَقُوْنِ﴾ (البقرۃ ۱۷۵) ’’اور مجھ سے ہی تقوی اختیارکئے رہو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾[آل عمران ۱۷۵] ’’ پس تم ان سے نہ ڈر؛ مجھ سے ہی ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :