کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 675
کے پاس دعا کرتے ہوئے قبلہ کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔
حضرت مالک بن انس رحمہ اللہ اور دیگر حضرات مکروہ سمجھتے تھے کہ کوئی یوں کہے: ’’میں نے قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی‘‘ کیونکہ کبھی اس لفظ سے مراد وہ بدعت زیارت بھی لی جاسکتی ہے جو کہ شریعت مطہرہ میں ممنوع ہے؛ جیسے حاجات طلب کرنے کے لیے زیارت کرے۔ پس یہ حضرات ایسا لفظ بھی زبان پر لانا مکروہ سمجھتے تھے جس میں شرک کی ملاوٹ ہو؛ یا پھر لوگوں نے کوئی ایسا لفظ ایجاد کرلیا ہو؛ اوروہ فاسد معانی پر مشتمل ہو۔اور اگر لفظ زیارت سے مراد شرعی زیارت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : انہوں نے سلف صالحین میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے پاس رک کر اپنے لیے یا کسی کے لیے دعا کرتا ہے۔ یہ کام بدعت ہے۔ اور آپ فرمایا کرتے تھے:’’ اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح اسی چیز سے ہوگی جس سے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔ امام مالک رحمہ اللہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے مدینہ طیبہ میں تابعین رحمہم اللہ کا دور پایا تھا۔ اوروہ تمام لوگوں کے بڑھ کراللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واجب حقوق کے جاننے والے تھے۔
پس جب خیر الخلائق صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی ایسے تھا جو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والے ؛ اوربنی آدم کے سردار؛ اور لوائے حمد کے علمبردار ہیں ؛بروز قیامت اس علم کے نیچے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے بعد کے تمام لوگ جمع ہوں گے۔ اور آپ ہی اس وقت انبیائے کرام علیہم السلام کے خطیب ہوں گے؛ جب وہ وفد کی صورت میں رب تعالیٰ کے حضور حاضرہوں گے۔اور تمام انبیاء کی جماعت کے وقت ان کے امام ہوں گے۔ اور آپ کو وہ مقام محمود عطا کیا گیا ہے؛ جس پر اگلے اور پچھلے لوگ رشک کریں گے۔آپ خاتم الانبیاء اور سید المرسلین ہیں ؛ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب سے افضل دیکر سب سے بہترین اور لوگوں کی خیر خواہ امت کی طرف مبعوث کیا تھا ۔اور آپ پر سب سے افضل کتاب نازل کی ؛ اوراسے اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور ان پر نگہبان بنادیا۔ اس کے ذریعہ سے مخلوق کو ہدایت دی اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالا؛ اوراللہ غالب و حکمت والے کی راہ کی طرف ہدایت دی؛ اوروہ کتاب جس کے ذریعہ اللہ نے حق و باطل؛ ہدایت اور گمراہی؛ کامیابی اور ناکامی؛ اور راہ جنت اور راہ جہنم کے درمیان فرق کیا ہے۔ وہ جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو نیک بخت اور بدبخت میں تقسیم کیا ہے؛ پس وہ انسان نیک بخت ہے جو اس پر ایمان لایا؛ اور اس کی اطاعت کی؛ اور بد بخت وہ انسان ہے جس نے اسے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔ نجات اور سعادت مندی اسی سے بندھے ہوئے ہیں ۔ کوئی اور سبب ایسا نہیں ہے جس کی بنا پر انسان اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پاسکے؛ اور دنیا اور آخرت کی کامیابی سمیٹ سکے۔ جن تک اس کتاب کی دعوت پہنچ گئی ان پر حجت رسالت قائم ہوگئی۔ سعادت تو اس پر ایمان لانے میں اور اس نور کی اتباع کرنے میں ہے جو اس کے ساتھ نازل ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :