کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 674
پیش کئے جاتے ہیں ۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ کے رسول! آپ قبر میں بوسیدہ ہو چکے ہوں گے تو ہمارے درود آپ پر کیسے پیش کئے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیائے کرام علیہم السلام کے جسم حرام کر دئیے ہیں ۔‘‘ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنن میں یہ معروف ہے کہ آپ پر صلاۃ و سلام پڑھا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب مقدس میں فرماتے ہیں : ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ﴾[الاحزاب ۵۶] ’’ اے ایمان والو! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔‘‘ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( من صلی علیّ مرۃ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہِ عشرا ۔)) ’’ جو شخص ایک بار مجھ پر درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا۔‘‘ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دور سے درود و سلام پڑھا جاتا ہے؛ تو وہ آپ تک پہنچادیا جاتا ہے۔ اور جب قریب سے آپ پر سلام پڑھا جاتا ہے تو آپ سلام کرنے والے کے سلام کو سنتے ہیں ۔ [1] یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جب کوئی ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر تشریف لاتا تو آپ پر اور آپ کے دونوں ساتھیوں پر سلام کرتا۔جیساکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے؛ آپ یوں کہا کرتے تھے: السلام علیک یارسول اللّٰہ ؛ السلام علیک یا ابابکر السلام علیک یا ابہ ان میں سے کوئی ایک بھی وہاں پر رک کر اور قبر اطہر کی طرف منہ کرکے دعا نہیں کرتا تھا۔ اسی لیے ائمہ اربعہ اور دیگر کا اتفاق ہے کہ جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرلے؛ اور دعا کرنا چائے ؛ تو وہ قبلہ رخ ہوکر دعا کرے گا؛ قبر کی طرف رخ کرکے نہیں ۔ پھر ایک گروہ جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہاہے: ’’ جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کر لے؛ تو اسے چاہیے کہ قبر اطہر کی اس طرح پشت کرے کہ وہ قبر کی دائیں جانب ہو؛ اوراس کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ جب کہ اکثر علماء جیسے ۔ امام مالک ؛ امام شافعی ؛ اور امام احمد اوردیگر رحمہم اللہ ۔ کا کہنا ہے کہ:سلام کے وقت قبلہ کی طرف پیٹھ اور قبر کی طرف منہ کرے؛ اور جب دعا کرنا ہوتو صرف ایک اللہ تعالیٰ سے ہی دعا مانگے؛ اور اسی کے لیے نماز پڑھے؛ اور قبلہ رخ کرے۔ جیسا کہ عرفات میں یا صفا و مروہ پر یا جمرات
[1] رواہ مسلِم 1؍306 ؛ ِکتاب الصلاِۃ، باب الصلاِۃ علی النبِیِ؛ ولفظہ : من صلی علی واحِد؛ ورواہ أحمد عنہ فِی مسندِہِ ط. المعارِفِ 3؍2852 رقما: 7551،ولکِن لفظہ:’’من صلی علی مرۃ واحِدۃ کتب اللہ عز وجل لہ بِہا عشر حسنات ؛ قال الشیخ أحمد شاِکر رحِمہ اللہ تعالیٰ فِی تعلِیقِہِ أن الحدِیث روِی بِلفظِ’’ صلی اللہ علیہِ عشرا ‘‘ سننِ بِی داود 2؍117 کتاب الوِترِ، باب فِی الِاستِغفارِ۔