کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 673
ائمہ مسلمین میں سے کسی ایک نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔ بلکہ ان کا اعتماد اس روایت پر رہا ہے؛ جو سنن ابی داؤد میں روایت کی گئی ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((ما مِن رجل یسلِم علیّ ِإلا رد اللّٰہ علیَّ روحِی حتی أرد علیہِ السلام )) [1]
’’ مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔‘‘
اورابن عبد البر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’یہ حکم عام ہے؛ اور جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ثابت ہے؛ اور اس کی وضاحت اس دوسری روایت سے ہوتی ہے جس میں آپ نے فرمایا:
’’جب کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی قبر سے گزرتا ہے؛ جسے وہ دنیا میں جانتا ہو؛ اوروہ اس پر سلام کرتا ہے؛ تو اللہ تعالیٰ اس کی روح کو اس پر لوٹا دیتے ہیں تاکہ وہ سلام کا جواب دے۔‘‘ [2]
اور سنن نسائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے؛ فرمایا:
’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے میری قبر پر فرشتوں کو مقرر کر رکھاہے جو مجھ تک میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں ۔‘‘ [3]
سنن ابی داؤد میں حضرت اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أکثِروا علی مِن الصلاِۃ یوم الجمعِۃ ولیلۃ الجمعۃِ فإِن صلاتکم معروضۃ علیَّ ۔)) قالوا:کیف تعرض صلاتنا علیک وقد رِمت؟ ۔أ ی قد صِرت رمِیما۔ فقال: (( إِن اللّٰہ تعالیٰ حرم علی الأرضِ أن تأکل لحوم الأنبِیائِ۔))[4]
’’ جمعہ کے دن اور اس رات میرے اوپر کثرت سے درود بھیجا کرو ، اس لیے کہ تمہارے درود مجھ پر
[1] سنن ابی داؤد ۲؍ ۲۹۳ ؛ کتاب المناسک ؛ باب زیارۃ القبور
[2] فِی ’’ المعجمِ الکبِیرِ ‘‘ لِلسیوطِیِ 1؍718 حدِیثینِ بِہذا المعنی: الأول: ما مِن رجل یزور قبر حمید فیسلِم علیہِ ویقعد عِندہ ِإلا رد علیہِ السلام وأنِس بِہِ حتی یقوم مِن عِندِہِ۔وقال السیوطِی: أبو الشیخِ والدیلمِی عن أبِی ہریرۃ . والثانِی: ما مِن رجل کان یمر بِقبر کان یعرِفہ فِی الدنیا فسلم علیہِ ِإلا عرفہ ورد علیہِ۔قال السیوطِی: ابن عساکِر فِی تارِیخِہِ، عن أبِی ہریرۃ . وأورد ابن قیِمِ الجوزِیۃِ فِی ِکتابِ ’’الروحِ‘‘ص 4، ط. حیدر آباد 1383؍1963 ۔الحدِیث الذِی ذکرہ ابن تیمِیۃ وقال: إِن عبد البرِ رفعہ إِلی النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ثم نقل عن ِکتابِ القبورِ لِابنِ أبِی الدنیا:’’ باب معرِفۃِ الموت بِزِیارۃِ الأحیائِ‘‘ عِدۃ أحادِیث وآثار بِنفسِ المعنی، ولِکنہ لم یتکلم عن درجۃِ ہذِہِ الأحادِیثِ والآثارِ ہل تصِح أم لا، انظر’’ ِکتاب الروحِ‘‘ ص 12۔
[3] سنن النسائِی بِشرحِ السیوطِی؛ 3؍43 کتاب السہوِ، باب السلامِ علی النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ المسندِ ط. المعارِفِ 5؍244 ؛ رقم 3666،؛ سننِ الدارِمِیِ 2؍317 ؛ ِکتاب الرِقاقِ، باب فِی فضلِ الصلاۃِ علی النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔
[4] سنن ابی داؤد برقم 1531۔قال الالبانی: صحیح