کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 666
تھا؛ اوروہ تمام کافروں سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا او رآپ کو تکلیف دینا۔ مگر جب اس نے توبہ کی؛ اور اسلام قبول کرلیا ؛ تو لوگوں میں سے بہترین مسلمان ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سخت تعظیم اور آپ سے حیاء کرنے والے ثابت ہوئے۔ ایسے ہی حارث بن ہشام کا حال بھی ہے۔ حارث تو یہ کہا کرتے تھے: ’’ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے ؛ کوئی غلط بات زبان پر نہیں لائی ۔ [الترغیب و الترہیب ۴؍۳۰۶] توبہ کرنے والوں کے اس طرح کے واقعات بہت زیادہ ہیں ۔ پس جو کوئی گناہ سے توبہ کرنے والے کو ؛ جسے اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے اور ہدایت دی ہے؛ اس گناہ میں کوتاہی پر بتاتا ہے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے؛ اور وہ توبہ کے بعد اس سے بہتر حالت میں ہے جس پر وہ پہلے تھا؛ تو یقیناً ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے دین اور رسولوں کے لائے ہوئے پیغام سے جاہل ہے۔ سابقہ ذکر کردہ دلائل کی بنیاد پر جو کچھ بھی وہ لوگ کہتے کہ یہ نقص اور کمی ہے؛ اس کی حقیقت یہ ہے کہ واقعی یہ نقص اور کمی ہے مگر اس وقت جب اس سے توبہ نہ کی جائے۔ لیکن جب وہ توبہ کرلے؛تو اس کے اثرات بالکل ہی ختم کردیے جاتے ہیں ۔ بلکہ بسا اوقات انہیں نیکیوں سے بدل دیا جاتا ہے۔ تو ان کے حال کی نسبت سے ان میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اور جب توبہ کے بعد وہ اپنے جیسوں ؍ اپنے ہم پلہ لوگوں سے افضل ہوجاتا ہے؛ ان سے کم نہیں رہتا ۔ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ: ہر وہ انسان جس نے گناہ کیا ؛ او رتوبہ کی وہ ان سے افضل ہے جنہوں نے یہ گناہ نہ کیا ہو؛ بلکہ یہ معاملہ لوگوں کے احوال میں اختلاف کے حساب سے مختلف ہوتا ہے۔ پس لوگوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں ؛ جو توبہ کے بعد پہلے سے زیادہ بہتر ہو جاتے ہیں ؛ اور بعض ایسے ہوتے ہیں ؛ جو پھر سے ان گناہوں میں لت پت ہو جاتے ہیں ۔ اور بعضوں کی حالت وہ پہلی سی نہیں رہتی ۔ پس یہ تین قسم کے لوگ ہوئے۔ ان میں سے افضل وہ لوگ ہیں جو گناہ کے بعد توبہ کرکے [پہلے سے ]بہتر ہوجاتے ہیں او ربعض ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں ۔ اور بعض کی حالت پہلے سے زیادہ گر جاتی ہے۔ اس باب میں ایسے مسائل بہت زیادہ ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ؛ یہ تفصیل کسی دوسرے مقام پر ہوگی؛ یہاں پر صرف تنبیہ مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین صحابہ ؛ تابعین اور دیگر ائمہ مسلمین کتاب و سنت میں وارد انبیائے کرام علیہم السلام کے احوال پر متفق ہیں ۔ان میں سے کسی ایک سے بھی وہ عقیدہ ثابت نہیں جو رافضہ ؛ معتزلہ اور ان کے متبعین نے اس باب میں ایجاد کرلیاہے۔ بلکہ تفسیر و احادیث ؛ آحادیث اور آثار؛زہد اور احوال سلف کی کتابیں صحابہ اور تابعین کے ان احوال سے بھری پڑی ہیں جن پر قرآنی دلائل موجود ہیں ۔ان میں ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے قرآن میں تحریف کی ہو جیسے یہ لوگ کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی کوئی احادیث میں وارد امور کو جھٹلانے والا تھا جیسا کہ یہ لوگ جھٹلاتے ہیں ۔ اور نہ ہی کسی نے اعتماد ختم ہونے یا نفرت کے واجب ہونے کا کہا ؛یا اس طرح کی کوئی دیگر بات کی؛ جیسے یہ لوگ کہتے ہیں ۔بلکہ ان لوگوں کے عقائد جنہوں نے جہالت کی وجہ سے غلو کیا؛ وہ دین میں