کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 664
’’مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈنگ نہیں کھاتا۔‘‘
مزید برآں ایسا کرنے سے خود پسندی اورتکبر اور دیگر ان امراض کا خاتمہ ہو جاتاہے جو انسان کے ساتھ پیش آتے ہیں ؛ اور اس سے مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی رحمت واجب ہو جاتی ہے؛ اور اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ اور رحمت کی امید بڑھ جاتی ہے۔ اور انہیں توبہ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ اس سے اللہ تعالیٰ کاوہ فضل و کرم اور احسان واضح ہوتے ہیں جو توبہ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے؛ رسول اللہٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(( والذي نفسي بیدہ ! لو لم تذنِبوا لذہب اللہ تعالیٰ بِکم ولجاء بِقوم یذنِبون ثم یستغفِرون فیغفِر لہم ۔))[1]
’’اس ذات کی قسم جسکے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تمہیں لے جاتا اور ایسی قوم لے آتا جو گناہ کرتے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دیتا۔‘‘
مزید برآں اس سے بندے کی اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس پر توکل کی سخت ضرورت اور اس کی بارگاہ میں التجاء و زاری واضح ہوتی ہے۔ یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری میں لگا رہے؛ اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی مدد کے بغیر کسی چیز کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔ بیشک جو کوئی اس آزمائش کی تلخی؛ اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے بغیر اس سے اپنے دفاع سے عاجزی کا مزہ چکھ لیتا ہے؛ تو اس کے دل کا مشاہدہ اور اپنے رب کی بارگاہ میں اس کے فقر و نیاز مندی اور سخت حاجت کا ہوتا ہے جو کہ اس کے لیے اپنے رب کی اطاعت او راس کی نافرمانی سے اجتناب پر اس انسان کی نسبت بڑا مدد گار ہوتا ہے جس کی کیفیت یہ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی حالت توبہ کے بعد اس سے بہتر تھی جو خطا کے وقوع سے پہلے تھی۔ اور بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ : اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک توبہ محبوب ترین چیزوں میں سے نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی اپنے نیک او رمخلوق میں سب سے زیادہ عزت والے بندوں کو گناہ میں مبتلانہ کرتا۔
یہی وجہ ہے آپ دیکھیں کہ جو لوگ گناہ میں مبتلا نہیں ہوئے ؛ ان کی نسبت گناہ سے سچی توبہ کرنے والا انسان اطاعت گزاری پر زیادہ ثابت قدم؛ اور نیکی میں زیادہ راغب اور نافرمانی سے بہت زیادہ ڈرنے اور اجتناب کرنے والا ہوتا ہے۔ صحیحین میں حضرت اسامہ والی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أ قتلتہ بعد أن قال لا ِإلہ ِإلا اللّٰہ۔))[2]
[1] مسلِم 4؍2105 ؛ کتاب التوبِۃ، باب سقوط الذنبِ بِالِاستِغفارِ توبۃ؛ والتِرمِذِیِ فِی سننِہِ 4؍79 ؛ کتاب صِفۃِ الجنۃِ، باب ما جاء فِی صِفۃِ الجنۃِ ونعِیمِہا۔
[2] البخاری 5؍144 ِکتاب المغازِی، باب بعثِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أسامۃ بن زید ِإلی الحرقاتِ؛ مسلِم 1؍96 ؛ ِکتاب الإِیمانِ، باب تحرِیمِ قتلِ الکافِرِ بعد أن قال: لا إِلہ ِإلا اللّٰہ