کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 662
اس سے ان کی گمراہی اور جھوٹ ہر اس عقل مند انسان پر کھل کر واضح ہو جاتا ہے جو ان کے عقائد سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے وہ یہ اس مسئلہ میں تمام طوائف سے بڑھ کر غالی ثابت ہوئے جو کہ عقلی اور نقلی دلائل سے سب سے زیادہ دور تھے۔ ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وہ انبیاء اور ائمہ سے کسی ایسے کام کا صدور ان کی شان میں نقص خیال کرتے ہیں ؛ اور اس سے ان کی تنزیہ کو واجب کہتے ہیں ۔ جب کہ وہ اس میں خطاکار ہیں ۔ یا تو پہلے مقدمہ میں غلطی پر ہیں ؛ یا پھر دوسرے مقدمہ میں ۔
جہاں تک پہلے مقدمہ کا تعلق ہے؛ تو جو کوئی گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرکے رجوع کر لے ؛ تو اس کا مقام و مرتبہ پہلے مرتبہ سے زیادہ بلند و بالا ہو جاتا ہے؛ اس سے کوئی کمی نہیں آتی۔بلکہ توبہ کرنے والا عظیم فضیلت اور عزت کے مقام کا حامل ہوتا ہے۔ اس سے ان کے وارد کردہ تمام شبہات ختم ہو جاتے ہیں ۔اورجب یہ پتہ چل جائے کہ بیشک اولیاء اللہ تعالیٰ میں کوئی ایسا انسان بھی ہوسکتا ہے جس نے کفر کے بعد اسلام قبول کیا ہو؛ یا پھر نفاق کے بعد ایمان والا ہوا ہو؛ اور نافرمانی کے بعد اطاعت گزاری اختیار کی ہو۔ جیسا کہ اس امت کے افضل ترین اولیاء اللہ تعالیٰ میں سے سابقین اولین ہیں ؛ تو پھر اس اصولی مسئلہ کی صحت واضح ہو جاتی ہے۔
انسان نقص سے کمال کی طرف منتقل ہوتاہے؛ پس شروع میں اس کے نقص اور کوتاہی کی طرف نہیں دیکھا جاتا؛ لیکن اس کے انجام کے کمال کو دیکھا جاتا ہے۔ پس کسی انسان کو اس وجہ سے عیب نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ شروع میں نطفہ تھا؛ پھر لوتھڑا بنا؛ پھر ایک گوشت کو ٹکڑا بن گیا۔ اس لیے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔ پس جو کوئی کسی چیز کی ابتداء کو دیکھتا ہے ؛ تو وہ اس ابلیس کی جنس میں سے ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہُ مِنْ طِینٍ ﴾(ص 76)
’’ کہا میں اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور تو نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اِِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِینٍ (71) فَاِِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوْا لَہٗ سَاجِدِیْنَ ﴾(ص 72)
’’جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ بے شک میں تھوڑی سی مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں ۔ تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ نے انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا؛اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان میں نفخ روح کے شرف سے سرفراز فرمایا تھا۔ اگرچہ انہیں مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔ اور ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا تھا۔ جیسا کہ صحیح