کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 661
رہ گئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ :
’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا یہ سب خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے ۔‘‘[1]
یہ تمام معاریض [توریہ] تھے۔ جن کے اختیار کرنے کے لیے آپ ماموربہ تھے۔ اور آپ کاایسا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کا کام تھا۔ معاریض کو بسا اوقات جھوٹ کہا جاتا ہے؛ کیونکہ اس سے نفسِ حقیقت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
صحیحین میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے روایتہے ؛ فرماتی ہیں :
’’میں نے رسول اللہٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی نہیں سنا کہ آپ کبھی جھوٹ بولنے کی ذرا بھی اجازت دیتے ہو مگر تین معاملات میں ۔شوہر جو بیوی سے بات کرے [محبت کی تاکہ دونوں میں ازدواجی تعلق برقرار رہے]۔اور جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں بات کہے۔[ اور اس کا سوائے اصلاح کے کوئی ارادہ نہ ہو]۔تیسرا :آدمی جنگ میں کوئی بات خلاف واقعہ کہے۔‘‘[2]
فرمانے لگیں : ’’ان باتوں کو لوگ جھوٹ کہتے ہیں ؛ جب کہ یہ معاریض ہیں ۔‘‘
لیکن اس کے برعکس جو کچھ روافض کہتے ہیں : کہ بیشک انبیائے کرام علیہم السلام سے کوئی خطا یاصغیرہ گناہ واقع نہیں ہو سکتا؛ نہ ہی نبوت سے پہلے اورنہ ہی نبوت کے بعد ۔ ایسے ہی ائمہ سے بھی ۔ پس اس عقیدہ میں امامیہ رافضہ تمام امت سے انفرادیت رکھتے ہیں ۔ جو کہ کتاب و سنت اور اجماع سلف کے مخالف عقیدہ ہے۔ اس سے ان کا مقصود حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی خلافت و امامت پر قدح کرنا ہے۔ اس لیے کہ یہ حضرات کفر سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ وہ ہمیشہ سے مؤمن ہی تھے؛نہ ہی ان سے کبھی کوئی غلطی ہوئی اور نہ ہی کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا۔ اوریہی حال باقی تمام بارہ ائمہ کا بھی ہے۔
[1] یہ حدیث صحیح بخاری ۴؍۱۴۰؛ کتاب الانبیاء؛ باب قول اللہ تعالیٰ :﴿واتخذ اللّٰہ تعالیٰ ابراہیم خلیلاً﴾میں ہے ۔ اس روایت میں ہے:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا ، دو ان میں سے خالص اللہ تعالیٰ عزوجل کی رضا کے لیے تھے ۔ ایک تو ان کا فرمانا [بطور توریہ کے]کہ میں بیمار ہوں ۔ اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ :’’بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے [بت] نے کیا ہے۔‘‘ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے ۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے ۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں ۔ ....۔‘‘مزید دیکھیں : مسلم ۴؍ ۱۸۴۰۔ سنن الترمذی ۵؍ ۴۔ کتاب التفسیر؛ سورۃ الانبیاء۔
[2] مسلِم 4؍2011 ؛ ِکتاب البِرِ والصِلۃِ والآدابِ، باب تحرِیمِ الکذِبِ وبیانِ ما یباح مِنہ ؛ سننِ أبِی داود 4؍385 ؛ ِکتاب الأدبِ، باب فِی ِإصلاحِ ذاتِ البینِ؛ سننِ التِرمِذِیِ 3؍222 ؛ أبواب البِرِ والصِلۃِ ؛ باب فِی ما جاء فِی إِصلاحِ ذاتِ البینِ؛ المسندِ ط. الحلبِیِ6؍403 ؛وذکر البخاری قِطعۃ مِن الحدِیثِ 3؍183 ؛ کِتاب الصلحِ، باب لیس الکاذِب الذِی یصلِح بین الناسِ....۔‘‘