کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 660
ایذاء دینا حرام ہے۔ اور یہ کہ ان کی اقتداء واجب ہوتی ہے؛ جب کہ گناہ میں کسی کی بھی اقتداء نہیں کی جاسکتی۔
یہ تو معلوم ہے کہ سزا کا استحقاق اور درجات میں کمی عدم توبہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ جبکہ بلا ریب انبیائے کرام علیہم السلام کے معصوم ہونے کا مطلب ان کا کسی غلطی پر اصرار نہ کرنا ہے۔
مزید برآں یہ مسئلہ بعض کبیرہ گناہوں کا ہے؛ صغیرہ کا نہیں ۔ جمہورمسلمین انبیائے کرام علیہم السلام کو کبیرہ گناہوں خصوصاً فواحش سے منزہ قرار دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کا کوئی کبیرہ گناہ ذکر نہیں کیا؛ چہ جائے کہ کوئی فحاشی ذکر کی جائے۔ بلکہ سورت یوسف میں یہ واضح کیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ پاک اپنے مخلصین بندوں کو فحاشی اور برائی سے بچا کر رکھتے ہیں ۔ اور بلاشک ان کی اقتداء ان امور میں ہوتی ہے جن پر وہ برقراررہیں ؛ اور ان سے ان کو منع نہ کیا جائے۔
مزید یہ کہ بلاشک گناہوں کی کئی اقسام ہیں ۔یہ بات تو معلوم ہے کہ ان کے حق میں ہر جنس کا گناہ ناجائز ہے۔ خصوصاً جھوٹ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہوتا۔ کیونکہ جھوٹ مطلق صدق کے منافی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ جھوٹ بولنے والے کی گواہی رد کر دی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ علماء کے ایک قول کے مطابق کبیرہ گناہ نہ بھی ہے؛ جیسا کہ امام احمد سے بھی ایک روایت ہے۔ اور اگر جھوٹی گواہی دینے والا جھوٹ سے توبہ کرلے ؛ تو کیا اس کی گواہی قبول کی جائے گی یا نہیں ؟ اس میں علماء کے دو قول ہیں ۔ امام مالک رحمہ اللہ سے مشہور یہی ہے کہ اس کی گواہی قبول نہ کی جائے گی۔ ایسے ہی جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرکسی ایک حدیث میں بھی جھوٹ بول دے؛ پھر اس سے وہ توبہ بھی کر لے؛ تو علماء کے ایک قول کے مطابق اس کی روایت قبول نہیں ہوگی۔ یہ امام أحمد اور امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ اس لیے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس نے توبہ کا اظہار صرف اس لیے کیا ہو کہ اس کی روایت قبول کی جائے۔ پس یہ ہر گز نہیں ہوسکتا کہ کوئی نبی جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔ بھلے وہ صغیرہ گناہ کے درجہ میں ہو یا کبیرہ گنا ہ کے درجہ میں ۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’ کسی نبی کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں کہ اس کی آنکھ خیانت کرنے والی ہو۔‘‘ [1]
[1] سنن ابی داؤد ۳؍ ۷۹۔ کتاب الجہاد ؛ باب قتل الاسیر ولا یعرض علیہ الاسلام؛حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا سب کو امان دے دی ، انہوں نے ان کا اور ابن ابی السرح کا نام لیا ، رہا ابن ابی سرح تو وہ عثمان بن عفان کے پاس چھپ گیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو عثمان نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کیا ، اور کہا : اللہ تعالیٰ کے نبی! عبداللہ سے بیعت لیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی جانب دیکھا ، تین بار ایسا ہی کیا ، ہر بار آپ انکار کرتے رہے ، تین بار کے بعد پھر اس سے بیعت لے لی ، پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں کوئی بھی عقلمند آدمی نہیں تھا کہ جس وقت میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے روک رکھا تھا ، اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ کے رسول! ہمیں آپ کے دل کا حال نہیں معلوم تھا ، آپ نے ہمیں آنکھ سے اشارہ کیوں نہیں کر دیا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کنکھیوں سے اشارے کرے۔‘‘
سننِ أبِی داود 4؍183 ؛ کتاب الحدودِ، باب الحکمِ فِیمنِ ارتد، سننِ النسائِیِ 7؍97 ؛ ِکتاب تحرِیمِ الدمِ، باب الحکمِ فِی المرتدِ. وانظرِ الخبر فِی سِیرۃِ ابنِ ہِشام 4؍52۔