کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 659
کردیے تھے تو پھر آپ کو اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں تھا کہ جب وہ اپنے رب کے پاس شفاعت کے لیے جائیں گے تو انہیں کسی بات پر کوئی ملامت ہوگی۔ اگرچہ آپ بھی سفارش اجازت ملنے کے بعد ہی کریں گے۔ بلکہ جب آپ سجدہ کریں گے؛ اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد و ثناء بیان کریں جو اسی دن آپ پر کھولی جائے گی؛ اور اس سے پہلے کبھی ان الفاظ میں تعریف نہیں کی ہوگی۔ تو آپ سے کہا جائے گا: ’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا سر اٹھائیے؛ اور فرمائیے؛ آپ کی بات سنی جائے گی۔ اور مانگئے؛ آپ کو دیا جائے گا۔اور آپ سفارش کریں ؛ آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘ یہ تمام باتیں صحیحین میں ہیں ۔ جس سے یہ کہا جائے: سابقہ کی بات تو ہوگئی؛ اوریہ پتہ نہیں تھا کہ آپ کے پچھلے گناہ بھی معاف کردیے گئے ہیں ؛ تو آپ کو خوف محسوس ہوا کہ اجازت ملنے سے پہلے شفاعت کے لیے جانا کہیں گناہ کا موجب نہ ہو؛ تو آپ اللہ تعالیٰ کے کمال خوف کی وجہ سے رک گئے ۔ اور آپ یہ کہیں کہ: میں نے ایک غلطی کی ؛ اور اس کی مغفرت نہیں ہوئی ؛ تو مجھے ڈر محسوس ہوا کہ میں کوئی دوسرا گناہ کربیٹھوں ۔ بیشک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لا یلدغ المؤمِن مِن جحر واحِد مرتینِ۔))[1] ’’مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈنگ نہیں کھاتا۔‘‘ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ: وہ ایک ہی کام دو مرتبہ نہیں کرتا۔ جب چکھنے والا گناہ کی تلخی کا ذائقہ چکھ لیتا ہے؛ تو وہ اسے خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی دوسرا گناہ نہ ہو جائے۔تو اسے پھر دوبارہ اسی طرح کی تلخی اور دکھ و تکلیف محسوس ہوتے ہیں ۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے کسی انسان کو کوئی چیز کھانے سے بیماری لگ جائے؛ پھر اسے شفا مل جائے۔ اب اگراسے دوبارہ وہ چیز کھانے کا کہا جائے تو وہ ڈرتا ہے کہ اسے پھر پہلے کی طرح بیماری لگ جائے؛ اس لیے وہ اسے نہیں کھاتا۔ اوروہ کہتا ہے: مجھے اس کھانے سے اس سے قبل بہت سخت تکلیف ہوئی ہے۔ اور اب مجھے ڈرلگتا ہے کہ دوبارہ ویسے ہی نہ ہو جائے۔ اس موضوع کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ۔ اوریہاں پر مقصود یہ ہے کہ: جن لوگوں نے ان امور میں معصوم ہونے کا دعوی کیا ہے؛جن سے توبہ کی جاسکتی ہے؛ تو ان کی اصل بنیاد یہ ہے کہ:اگر ان سے گناہ کا صدور ہو جائے تو ان کا مقام و مرتبہ امت کے کسی بھی گنہگار سے کم ہوگا۔ اس لیے کہ جس قدر ان کا مقام اعلی و برتر ہے؛ اسی قدر ان سے گناہ کا صدور قبیح تر ہوتا ہے۔ اوربیشک یہ واجب ہوتا ہے کہ جب وہ فاسق ہیں تو ان کی گواہی قبول نہ کی جائے۔ اس صورت میں وہ سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اور ان کو ایذاء دینا حرام نہیں رہتا۔ جب نص قرآنی کی روشنی میں انبیائے کرام علیہم السلام کو
[1] أحمد والبخاری ومسلِم وأبو داؤود وابن ماجہ عن أبِی ہریرۃ رضِی اللہ عنہ؛ فِی: البخاری 8؍31 ِکتاب الأدبِ، باب لا یلدغ المؤمِن.... ؛ مسلِم 4؍2295 ؛ ِکتاب الزہدِ والرِقاقِ، باب لا یلدغ المؤمِن.... ؛ سننِ أبِی داود ؛ ِکتاب الأدبِ، باب الحذرِ مِن الناسِ؛ سنن ابن ماجہ 2؍2318 ؛ کتاب الفتن ؛ باب العزلۃ۔