کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 658
تعریضات تھیں ۔اورحضرت موسی علیہ السلام اس آدمی کے قتل کردینے کا ذکر کریں گے۔[1] یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہ ان کے کمال فضل؛خوف اور عبودیت اور ان کی تواضع میں سے ہے۔ اس لیے کہ توبہ کرنے کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی عبودیت کامل ہوجائے ؛اوران کا خوف و خضوع بڑھ جائے ؛ پس اللہ تعالیٰ اس وجہ سے ان کے درجات کو مزید بلند کردیں ۔ پس اس چیز کو ممتنع کہنا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتے ہیں ؛ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت کہ اس ہستی کے لیے شفاعت کا سبب بن جائے جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اس کے امتناع کے قائل ہیں ؛ ان کے نزدیک حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہما السلام ان سے افضل ہیں ۔ مگرہم نے ان کی غلطی بیان کی ہے۔ لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمادیں گے: ’’ میں اس مقام کا اہل نہیں ہوں ؛ پس تم اس ہستی کے پاس جاؤ؛ جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے ہیں ۔اور مسیح علیہ السلام اس مقام محمود سے پیچھے ہوجائیں گے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔ یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ان فضائل میں سے جو انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں ۔ ان سب پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں ۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ شفاعت سے پیچھے رہ جانا ان کے موجودہ مقام میں نقص کا موجب نہیں تھا۔ بلکہ جب انہیں اس مقام محمود کا علم ہوا؛ جو کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندے کے لیے کمال مغفرت ؛ اور بندے میں کمال عبودیت کا مطالبہ کرتا ہے؛ جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص ہے؛ جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے تھے۔ اسی لیے مسیح علیہ السلام کہیں گے: آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جائیں ؛ وہ ایسی ہستی ہیں جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے پچھلے گناہ بھی معاف
[1] صحیح البخاری ۶؍ ۸۴۔ کتاب التفسیر ؛ باب سورۃ بنی اسرائیل۔ مسلم ۱؍ ۱۸۰۔ بخاری میں یوں ہے: حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج میرا رب بہت غصہ میں ہے اس نے مجھے ایک درخت کے قریب جانے سے روکا تھا؛ مگر نے نہ مانی۔ اور وہ نفسی نفسی کہیں گے اور فرمائیں گے کہ تم سب حضرت نوح کے پاس جاؤ۔ وہ سب حضرت نوح کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے: اے حضرت نوح ! آپ اہل زمین کی طرف اللہ تعالیٰ کے پہلے رسول ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے شکر گزار بندے کے نام سے یاد فرمایا ہے لہٰذا آپ ہماری سفارش کیجئے کیونکہ ہماری حالت بہت خراب ہو رہی ہے حضرت نوح فرمائیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غصہ میں ہے میں نے ایسا غصہ کبھی نہیں دیکھا اور اس نے تو مجھے ایک دعا دی تھی وہ میں اپنی امت کے لئے مانگ چکا ہوں پھر وہ بھی نفسی نفسی فرمائیں گے اور لوگوں سے کہیں گے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ....پھر آخر میں ....: لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ اے اللہ تعالیٰ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے اور پچھلے گناہوں کو معاف فرما دیا ہے۔ آپ ہماری شفاعت فرمایئے دیکھئے! ہم کیسی تکلیف میں ہیں ۔اس وقت میں جاکر عرش کے نیچے سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی حمد و تعریف کا ایسا طریقہ مجھ پر منکشف فرمائے گا جو اس سے قبل کسی کو نہیں بتایا گیا لہٰذا میں اس طرح اس کی حمد بجا لاؤں گا پھر حکم باری ہوگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے سر کو اٹھایئے اور مانگئے جو آپ مانگنا چاہتے ہیں جو شفاعت آپ کریں گے قبول کی جائے گی میں سجدے سے سر کو اٹھا کر امتی امتی کہوں گا۔ حکم ہوگا ....‘‘