کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 657
’’اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے رسولوں سے کہا ہم ہر صورت تمھیں اپنی زمین سے نکال دیں گے، یا لازماً تم ہماری ملت میں واپس آؤ گے، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ یقیناً ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے۔‘‘
اور یقیناً اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ نے فرعون کی مذمت کی ہے؛ کیونکہ اس نے حضرت موسی علیہ السلام کے ایک انسان کو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے آپ کی نبوت کا انکار کیا تھا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے؛[کہ اس نے کہا:]
﴿قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِینَا وَلِیدًا وَّلَبِثْتَ فِینَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ o وَفَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ o قَالَ فَعَلْتُہَا اِِذًا وَاَنَا مِنْ الضَّالِّینَ o فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمَّا خِفْتُکُمْ فَوَہَبَ لِی رَبِّی حُکْمًا وَّجَعَلَنِی مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾ (شعراء18۔21)
’’ اس نے کہا کیا ہم نے تجھے اپنے اندر اس حال میں نہیں پالا کہ تو بچہ تھا اور تو ہم میں اپنی عمر کے کئی سال رہا۔ اور تونے اپنا وہ کام کیا، جو تو نے کیا اور تو ناشکروں میں سے ہے۔کہا میں نے اس وقت وہ کام اس حال میں کیا کہ میں خطاکاروں سے تھا۔پھر میں تم سے بھاگ گیا جب میں تم سے ڈرا تو میرے رب نے مجھے حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں سے بنا دیا۔‘‘
حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے اس فعل سے توبہ کرلی تھی؛ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیا تھا۔ اس کی خبر دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَوَکَزَہٗ مُوْسٰی فَقَضٰی عَلَیْہِ قَالَ ھٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ o قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَغَفَرَلَہٗ اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾(قصص ۱۵۔ ۱۶)
’’ تو موسیٰ نے اسے گھونسا مارا تو اس کا کام تمام کر دیا۔ کہا یہ شیطان کے کام سے ہے، یقیناً وہ کھلم کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔ کہااے میرے رب! یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، سو مجھے بخش دے۔ تو اس نے اسے بخش دیا، بے شک وہی تو بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
پس اگر یہ کہا جائے کہ : جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی مغفرت کردی تھی؛ تو پھر اس غلطی کی بنا پر بروزقیامت وہ شفاعت کیوں نہیں کریں گے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام سے شفاعت کا کہا جائے گا؛ تو وہ فرمائیں گے :
’’ مجھے پہلے ہی درخت [جنت] کے کھانے سے منع کر چکا تھا؛ لیکن میں نے اس میں سے کھا لیا ۔ آج تو مجھے اپنی ہی پڑی ہے [نفسی نفسی]۔تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ ۔ ہاں ، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ چنانچہ سب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے؛ تو حضرت نوح علیہ السلام فرمائیں گے: میں نے اہل زمین پر وہ بد دعا کردی جس کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا۔ ....
ایسے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی ان تین تعریضات کا ذکر کریں گے جنہیں جھوٹ کہا گیا ہے؛ جبکہ وہ