کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 653
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اور کاہن ؛ اور نبی اور شاعر کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے۔ اس لیے کہ جب افتراء پردازوں نے کہنا شروع کیا کہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم شاعر اور کاہن ہیں ؛[ تویہ آیات نازل ہوئیں ]۔ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے؛ فرماتی ہیں : ’’بیشک جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع میں وحی آئی تو آپ کو اپنے نفس پر خوف محسوس ہوا۔اس سے پہلے کہ آپ کو اس کے فرشتہ ہونے کا یقین ہو۔ آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ’’ اے خدیجہ! کیا ہوگیا ہے کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔‘‘تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : ’’ ہرگز نہیں ؛ اللہ تعالیٰ کی قسم! آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو اللہ تعالیٰ کی قسم! صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ سچ بات کرتے ہیں دردمندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں مفلسوں کے لئے کسب کرتے ہیں اور مہمان کی ضیافت کرتے ہیں ۔ اور حق کی راہ میں پیش آنے والی مصیبتوں پر مدد کرتے ہیں ۔‘‘ تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی حسنِ عقل سے استدلال کیا کہ جس کواللہ تعالیٰ ان اعلی ترین اخلاقیات کے لیے پیدا کیا ہو جو کہ ممدوحین نیکوکار لوگوں کی سب سے اعلی ترین صفات ہوسکتی ہیں ۔؛ تو اللہ تعالیٰ پاک آپ کو کبھی ایسا بدلہ نہیں دیں گے کہ شیطان ان کی عقل اور دین کو خراب کردے۔‘‘ اس سے پہلے آپ کے پاس کوئی وحی کا علم نہیں جس کی وجہ سے وہ اس بات کا انکار کر رہی ہوتیں ۔ بلکہ یہ سب کچھ انہیں ان کے راجح عقل کی وجہ سے معلوم ہوا تھا ۔اور ایسے ہی جب جھوٹے نبیوں نے نبوت کا دعوی کیا؛ جیسے مسیلمہ کذاب ؛ اسود عنسی وغیرہ ؛ اس کے باوجود کے ان کی معاملہ میں شبہات پائے جاتے تھے؛ کیونکہ ان پر شیاطین آتے؛ اور ان کی طرف اپنی باتیں وحی کرتے۔ حتی کہ جاہل لوگ گمان کرنے لگتے کہ یہ بھی بالکل وہی چیز ہے جو انبیاء پر نازل ہوتی ہے اور وحی آتیی ہے۔ مگر جو چیز عقلاء تک پہنچتی تھی؛ اور جو کچھ وہ ان کی سیرت و کردار ؛ کذب بیانی اور فحش گوئی اور ظلم و ستم اور اس طرح کے دیگر امور کو دیکھتے تھے؛ اس سے ان پر صاف واضح ہو جاتا تھا کہ یہ نبی نہیں ہیں ۔ اس لیے کہ انہیں علم تھا کہ کوئی بھی نبی کبھی جھوٹا اور فاجر نہیں ہوسکتا۔ صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ؛کہ جب ذوالخویصرہ ۔جو قبیلہ بنی تمیم کا ایک شخص تھا ۔ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انصاف کیجئے؛ آپ عدل نہیں کررہے۔‘‘تو آپ ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ تیری خرابی ہو اگر میں انصاف نہ کروں گا تو کون انصاف کرے گا؟ اگر میں انصاف نہ کروں تو بہت ناکام و نامراد ہوں ؛ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے جبکہ میں آسمانوں کی وحی کا امین ہوں ۔‘‘ [1]
[1] البخاری ؛کتاب المناقب ؛ باب مناقب النبوۃ۔۴؍۲۰۰۔ مسلم ۲؍۷۴۳۔کتاب الزکاۃ ؛ باب ذِکرِ الخوارِجِ وصِفاتِہِم ; سننِ أبِی داود 4؍335 ۔ 337 ؛ِ کتاب السنۃِ، باب فِی قِتالِ الخوارِجِ . وأول الحدِیثِ فِی البخارِیِ: ویلک ومن یعدِل ِإذا لم أعدِل قد خِبت وخسِرت ِإن لم أکن أعدِل ". وانظر: در تعارضِ العقلِ والنقلِ 7؍180 ۔ 181.۔