کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 651
(11) فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ﴾[الواقعہ]
’’ اور تم تین قسم (کے لوگ) ہو جاؤ گے۔پس دائیں ہاتھ والے، کیا(خوب) ہیں دائیں ہاتھ والے۔ اور بائیں ہاتھ والے ،کیا (برے) ہیں بائیں ہاتھ والے۔ اور جو پہل کرنے والے ہیں ، وہی آگے بڑھنے والے ہیں ۔ یہی لوگ قریب کیے ہوئے ہیں ۔نعمت کے باغوں میں ۔‘‘
اورموت کے وقت تقسیم کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ فَاَمَّا اِِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (88) فَرَوْحٌ وَرَیْحَانٌ وَّجَنَّۃُ نَعِیْمٍ (89) وَاَمَّا اِِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ (90) فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ (91) وَاَمَّا اِِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّالِّینَ (92) فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍ (93) وَتَصْلِیَۃُ جَحِیْمٍ﴾[الواقعہ ]
’’ پس لیکن اگر وہ ان لوگوں سے ہو ا جو قریب کیے ہوئے ہیں ۔ تو (اس کے لیے) راحت اور خوشبو دار پھول اور نعمت والی جنت ہے۔اور لیکن اگر وہ دائیں ہاتھ والوں سے ہوا۔ تو (کہا جائے گا) تجھ پر سلام (کہ تو) دائیں ہاتھ والوں سے ہے۔اور لیکن اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں سے ہوا۔تو اس کے لیے کھولتے ہوئے پانی کی مہمانی ہے۔اور جہنم میں داخل کیا جانا ہے۔‘‘
ایسے ہی سورت دہر؛ اور سورت مطففین میں ان تین قسم کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
پس انبیائے کرام علیہم السلام سب سے افضل ترین مخلوق ہیں ۔ان کے مقام و مرتبہ کا اثبات اس سیاق کا تقاضا ہے۔ آخرت میں بھی ان کے درجات بہت بلند ہوں گے۔ پس اب یہ ممتنع ہوتا ہے کہ کوئی نبی فجار میں سے ہو۔ بلکہ عمومی اصحاب یمین میں سے بھی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ افضل ترین سابقین اولین میں سے بھی نہیں ہوتے۔ بیشک ان کا مقام و مرتبہ اس سے بلند و بالاہوتاہے؛ وہ عموم صدیقین اورشہداء اورصالحین سے بہت افضل و اعلی ہوتے ہیں ۔ بھلے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی صدیقین کی صفات سے موصوف کیا جاتا ہے۔ اور بہت سارے انبیائے کرام علیہم السلام شہادت کے مقام پر بھی فائز ہوتے ہیں ۔ لیکن مقام نبوت وہ مقام ہے جو انہی کے ساتھ خاص ہوتا ہے ؛ ان میں کوئی دوسرا غیر نبی ان کا شریک نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں :
﴿ وَ اٰتَیْنٰہُ اَجْرَہٗ فِی الدُّنْیَا وَ اِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ ﴾ (عنکبوت ۲۷)
’’ اور ہم نے اسے اس کا اجر دنیا میں دیا اور بے شک وہ آخرت میں یقیناً صالح لوگوں سے ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں [کہ انہوں نے دعا کی تھی O:
﴿ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ ﴾ (یوسف۱۰۱)
’’ مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملادے۔‘‘