کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 649
ہوتے ہیں جس کی بنا پر وہ نبوت کا مستحق قرار پاتا ہے۔جب قدریہ فرقہ کے لوگ جہمیہ جبریہ کے بالکل مد مقابل ہیں ؛ یہ دونوں فرقے دو مختلف کناروں پر ہیں ۔جب قدم عالم اور علت موجبہ کے قائلین فلاسفہ اس انکار کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کوئی کام اپنی قدرت اور مشئیت سے کرتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں :اللہ تعالیٰ نبوت کے جزئیات کو جانتے ہیں ۔ پس ان کے نزدیک نبوت ایک فیض ہے؛ جس سے کسی انسان کو اس کی استعداد کے مطابق فیضیاب کیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک نبوت ایک کسبی امر ہے۔ جو کوئی اپنی علمی قوت میں امتیازی حیثیت کا حامل ہو؛ اس طرح کہ اسے کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہ رہے؛تو اس کے نفس میں ایسا خطاب تشکیل دیا جاتا ہے جیسے وہ ایسے سنتا ہے جیسے کومحو نیند انسان سنتا ہے؛ جب کوئی اور انسان اس سے ایسے مخاطب ہو جیسے سوئے ہوئے کوخطاب کیا جاتا ہے۔اور وہ علمی اعتبار سے اتنا مؤثر ہو کہ عنصریات پر اپناایک غریب اثر چھوڑے؛وہ ان کے نزدیک نبی ہے۔ وہ کسی ایسے صاحب فضیلت ملائکہ کے قائل نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لیکر آتاہو؛ اور نہ ہی وہ کسی دوسرے فرشتے کے قائل ہیں ۔ اور نہ ہی کسی جنات کے وجود کو مانتے ہیں ؛ جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انبیاء کے لیے خارق عادات امور صادر کرتے ہیں ۔وہ ان تمام کو قوت ِ نفس قرار دیتے ہیں ۔ یہ ان لوگوں کا عقیدہ اگرچہ کفار یہود و نصاری کے عقیدہ سے بھی براہے؛ اور ان عقائد سے بہت دور ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام لیکر آئے ہیں ۔ پس بہت سارے وہ متاخرین بھی ان کے جال میں پھنس گئے جو نور نبوت کی کرنوں سے محروم رہ گئے تھے؛ کیونکہ ان لوگوں کا دعوی نظر عقلی ؛ اور صوفیاء کی خیالی کشف کا تھا۔ ان لوگوں کی انتہائی غایت فاسد قیاسات اور شکوک و شبہات تھے۔ اوردوسرے طبقہ کی غایت صرف فاسد خیالات اور سوچ و فکر ہے۔
انبیائے کرام علیہم السلام افضل ترین مخلوق ہیں:
چوتھا قول: ....جس پر جمہور سلف امت اور ائمہ اور بہت سارے نظار ہیں ؛ یہ کہ : بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں میں سے اور ملائکہ میں رسولوں کو منتخب کرتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنی رسالت کو کہاں رکھنا ہے۔ پس نبی کی کچھ خاص صفات ہوتی ہیں ؛ جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دین اور عقل میں دوسرے لوگوں پر امتیازی حیثیت دی ہوتی ہے۔ اور انہیں ان صفات کے لیے تیار کیا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے خاص فضل و رحمت کے لیے چن لیا ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
﴿وَقَالُوْا لَوْلاَ نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ (31) اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ ﴾[الزخرف ۳۰۔۳۱]
’’ اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟ کیا وہ