کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 646
اس کا اظہار بھی کیا۔ اور اپنے عمل سے آپ کو ورغلانے کی کوشش بھی کی؛ اور پھراپنے شوہر کے سامنے حضرت پر جھوٹ بھی بولا؛ اور دوسری خواتین سے اس برائی پر مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ اورجب آپ پاکدامن ہی رہے؛ اور اور اس گناہ کے سلسلہ میں اس کی بات نہ مانی؛ تو پھر آپ کو قید کروا دیا۔اسی لیے[کہنے لگی] ارشاد فرمایا:
﴿وَ مَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾(یوسف۵۳)
’’اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
یہ عزیز مصرکی بیوی کا قول ہے ؛ حضرت یوسف علیہ السلام کا قول نہیں ؛ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ بلکہ اس نے یہ بات اس وقت کہی جب حضرت یوسف علیہ السلام وہاں پرموجود نہیں تھے؛ جیل میں تھے۔ ابھی تک بادشاہ کے پاس نہیں آئے تھے۔ بلکہ جب بادشاہ کے جواب طلب کرنے پر اس عورت اوردیگر خواتین نے آپ کی برأت کا اقرار کیا تو اس وقت یہ کہا۔ یہ اس وقت ہوا جب بادشاہ نے آپ کو طلب کیا: [قرآن کریم میں ہے]:
﴿وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ﴾(یوسف۵۴)
’’ اور بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے لیے خاص کر لوں ، پھر جب اس نے اس سے بات کی تو کہا بلاشبہ تو آج ہمارے ہاں صاحب اقتدار، امانتدار ہے۔‘‘
رہ گیا یہ کہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی کوتاہی اور توبہ کا ذکر کیا ہے؛ جیسا کہ ارشاد فرمایا :
﴿ وَ عَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی(۱۲۱) ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَ ھَدٰی﴾(طہ ۱۲۲)
’’ اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اوروہ راہ سے ہٹ گئے۔پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، پس اس کی توبہ قبول فرمائی اور ہدایت دی۔‘‘
اور ارشاد فرمایا :
﴿فَتَلَقَّیٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ﴾ (البقرۃ ۳۷)
’’ پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اس نے اس کی توبہ قبول کر لی، یقیناً وہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
ایسے ہی حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
﴿وَظَنَّ دَاوُودُ اَنَّمَا فَتَنَّاہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَاَنَابَ (24) فَغَفَرْنَا لَہٗ ذٰلِکَ وَاِِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَزُلْفَی وَحُسْنَ مَآبٍ﴾ (ص 25)