کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 644
کہ پھر دوبارہ سے جب آپ نے ان کے معبودوں کی مذمت شروع کردی تو لوگ آپ سے بدکنے اور دور رہنے لگ گئے۔ حالانکہ پہلے انہوں نے یہ گمان کر لیاتھا کہ آپ نے ان کے معبودوں کی تعریف کی ہے۔آپ کا رجوع کرنا اس لیے تھا کہ آپ ہمیشہ ان جھوٹے معبودوں کی مذمت کرتے رہتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ نے ایک بات کہہ کر پھر یہ کہہ دیا کہ یہ شیطان کی طرف سے القاء ہوگئی تھی۔ جب ایسا واقعہ نفور کا سبب نہیں بنا ؛ تو دوسرے واقعات بالاولی نفور کا سبب نہیں بن سکتے تھے۔ مزید برآں یہ ثابت ہے کہ نسخ کی وجہ سے ایک گروہ متنفر ہوگیا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے: ﴿سَیَقُوْلُ السُّفَھَائُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰھُمْ عَنْ قِبْلَتِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا﴾(البقرۃ ۱۴۲) ’’عنقریب کچھ بے وقوف کہیں گے کس چیز نے انھیں ان کے اس قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے؟۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے: ﴿وَ اِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۰۱) قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾[النحل ۱۰۱۔۱۰۲] ’’اور جب ہم کوئی آیت کسی دوسری آیت کی جگہ بدل کر لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ نازل کرتا ہے، تو وہ کہتے ہیں تو تو گھڑ کر لانے والا ہے، بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔کہہ دے اسے روح القدس نے تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے، تاکہ ان لوگوں کو ثابت قدم رکھے جو ایمان لائے۔‘‘ پس احکام کی تبدیلی جس کی صراحت موجود ہے کہ وہ نفور کا سبب تھی؛ اوربہت سارے لوگ اس وجہ سے آپ سے دور ہوگئے تھے۔ یہ ایسی چیز نہیں تھی جس کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نفی کی جائے۔تو پھر رجوع حق کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؛ جس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ اس کی وجہ سے متنفر ہوئے ہوں ۔ بلکہ یہ امر بہت کم نفور کا سبب بنتا ہے ۔کیونکہ نسخ میں ایک حق سے دوسرے حق کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔جبکہ اس کے بیان کے مطابق وہ حق سے غیر حق کی طرف لوٹتے ہیں ۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ جب انسان باطل کو ترک کرکے حق کی طرف رجوع کرتا ہے تواس کی وہ تعریف و توصیف ہوتی ہے جو اس کے باطل پر باقی رہنے اور اسے حق ثابت کرنے کے لیے زور لگانے پرنہیں کی جاسکتی۔ پسجب توبہ کرنا جائز ہے تووہ اس کے زیادہ حق دار ہیں ۔اور جب یہ مصلحت ہے تو پھر اس میں بہت بڑے فوائد اورمصلحتیں ہیں ۔ اور اگرتوبہ اوراس کے علم میں بندوں کی بہت بڑی مصلحتیں نہ ہوتیں تو اللہ تعالیٰ سبحانہ و تعالیٰ کئی ایک مواقع پر اس کا ذکر اور تعریف نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کی کسی لغزش؍ کوتاہی کا ذکر نہیں کیا؛ مگر ساتھ ہی اس کی توبہ کا بھی ذکر کیا