کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 643
نہ کرسکتے تھے اور اس کے ساتھ ہی ان کے جس بھی بڑے نے توبہ کی؛ اور اپنے گناہ سے رجوع کیا ؛ تو انہیں نے اس کی تعظیم اور اطاعت ہی کی ہے۔ او رجس نے توبہ نہیں کی؛ وہ اس کے دشمن اسی وجہ سے بن گئے کہ وہ اس معاملہ کو گناہ شمار کرتے تھے؛ بھلے وہ [حقیقت میں ] گناہ نہ بھی ہو۔‘‘
پس اس سے معلوم ہوا کہ توبہ اوراستغفار نفرت کا موجب نہیں ہیں ؛ اور نہ ہی ان کی موجودگی میں ثقہ اور اعتماد ختم ہوتا ہے۔ اس کے عین برخلاف پاک دامنی کا مدعی اور عفت و طہارت کا ڈھنڈورہ پیٹنے والا کہیں زیادہ رجوع و انابت الی اﷲ کا محتاج ہے،یقیناً اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور اعتماد ختم ہوتا ہے۔اور ایسی حرکت کا ارتکاب کسی انتہائی جھوٹے اور جاہل سے ہی ہوسکتا ہے۔جب کہ پہلی قسم یعنی توبہ و استغفار کا صدور جہان بھر کے سچے اور اہل علم لوگوں سے ہوتا ہے۔یہ بات انتہائی واضح ہے کہ کسی ایک نے انبیائے کرام علیہم السلام میں سے کسی نبی کی نبوت پر اس وجہ سے قدح کی ہو ؛ اور نہ ہی کسی نے ان پر عدم ثقاہت کا کہا۔ کیونکہ نصوص شریعت اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کی توبہ قبول کرلی گئی۔ مسلمانوں کو ان نصوص میں ایسی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں جو کہ تحریف کی جنس سے شمار ہوتی ہے۔ جیسے بعض لوگ ایسی حرکتیں کرتے ہیں ۔ تورات میں اس طرح کی عبارت موجودہے۔ہمارے علم کی حد تک بنی اسرائیل یا کسی اور قوم نے کسی بھی کام سے صرف توبہ کرنے کے جرم میں کسی نبی کو ہدف ملامت نہیں بنایا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ان پر جھوٹے الزامات لگاکر ان پر قدح کیا کرتے تھے۔ جیسے وہ حضرت موسی علیہ السلام کو تکلیف دیا کرتے تھے۔ وگرنہ نبوت سے قبل حضرت موسی علیہ السلام کے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوا تھا۔ جس سے آپ نے توبہ کرلی تھی۔ اور ایسے ہی پھر آپ نے نبوت کے بعد اللہ تعالیٰ سے دیدار کے مطالبہ سے توبہ کی۔ہمارے علم کی حد تک بنی اسرائیل میں سے کسی ایک نے اس وجہ سے ان پر قدح نہیں کی۔
ایسے ہی جو کچھ سورت نجم میں پیش آیا ہے؛ جیسا کہ اس واقعہ میں ہے کہ:یوں کہا:
’’وہ بڑی شان والی مورتیاں ہیں ؛ جن کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔‘‘
سلف و خلف کے ہاں یہ مشہور ہے کہ ایسا کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہوگیا تھا۔ پھر اس تعالیٰ نے اسے ختم کرکے باطل کردیا۔یہ واقعہ ان لوگوں کے قول کے مطابق سب سے بڑا افتراء ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ اس واقعہ کو جھٹلاتے چلے آئے ہیں ۔اگر چہ کچھ لوگ اس کو جائز بھی قرار دیتے آئے ہیں ۔ یا تو نبوت سے پہلے یا پھر نبوت کے بعد۔ کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ ایسا کرنے سے تبلیغ میں خطأ واقع ہوتی ہے۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ دین کے سلسلہ میں بالاتفاق معصوم ہیں ۔جب کہ متفق علیہ عصمت سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطا پر برقرار نہ رہنے دیا جائے۔ اس پر تمام لوگوں کا اجماع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک بھی مشرک کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ اس نے کسی مسئلہ میں آپ کے رجوع کرنے کی وجہ سے آپ سے دوری اختیار کی ہو۔ اور آپ کا یہ فرمان : یہ کلمات شیطان نے ڈال دیے تھے۔ لیکن یہ روایت میں ضرور موجود ہے