کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 642
ربوبیت کے خصائص میں سے ایک خصوصیت ہے۔ جب کہ بندے کا کمال اس کی بارگاہ ربوبیت میں ضرورت اور حاجتمندی؛ اس کی بندگی؛ اور فقرو فاقہ ہے۔ عبودیت جتنی زیادہ کامل ہوگی؛ اتنا ہی زیادہ افضل ہے۔ اورانسان سے ایسے امور کا صادر ہوجانا جن کی وجہ سے اسے بارگاہ ربانی میں توبہ و استغفار کی ضرورت پڑے؛ اس سے بندے کی تواضع ؛ عبودیت اور فقر میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی لغزشیں دوسرے لوگوں کے گناہوں کی طرح نہیں ہوتیں ۔ بلکہ جیسا کہ کہا جاتا ہے : ’’ نیک لوگوں کی نیکیاں اور مقربین کی برائیاں ۔‘‘ لیکن ان میں سے ہر ایک کو اس کے مقام و مرتبہ کے حساب سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ : ’’سب بنی آدم خطاکار ہیں ، اور خطا کاروں میں سب سے بہترین توبہ کرنے والے ہیں ۔‘‘[1] [عدم ثقاہت اورنفور کے اعتراض کا جواب] ٭شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ....گناہ کے صدور سے انبیاء قابل اعتماد نہیں رہتے اور لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں ۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ:’’ انبیاء علیہم السلام قابل نفرت اس حالت میں ہوتے اگروہ گناہوں کی کثرت کے باوصف ان پر مصر ہوں ۔ وہ لغزشیں جن کے ساتھ توبہ و استغفار ملے ہوئے ہوں ؛[شاذ و نادر گناہ کے صادر ہونے کے بعد جب وہ کثرت سے توبہ و استغفار کریں گے] تو ہر گز ایسا نہ ہوگا۔یا وہ امور جو کہ کسی تاویل کی بنا پر واقع ہو جائیں ؛ یا پھر ان کا وقوع نبوت ملنے سے پہلے کا ہو۔ پس بیشک یہ باتیں انسان گراں سمجھتاہے؛ جیسا کہ اہل بصیرت کے ہاں واضح ہے۔ یہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ جانتے تھے کہ رعایا کس قدر آپ کی تعظیم اور اطاعت گزاری کرتی تھی۔ حالانکہ آپ ہمیشہ ایسے امور کا اعتراف کرتے تھے جن سے آپ کو رجوع کرنا پڑتا۔ جو کہ آپ کی غلطی ہوا کرتے۔ اورجب آپ کسی چیز کا اعتراف کرلیتے؛ اور حق بات کی طرف رجوع کرتے تو لوگوں کی نظروں میں بھی آپ کی محبت و تعظیم اور مقام و مرتبہ اور بڑھ جاتے۔ یہ وہ سب سے بڑی وجہ تھی جو کہ خوارج کے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اعتراض کا سبب بنی کہ آپ نے تحکیم حکمین کے مسئلہ سے توبہ نہیں کی۔ اگرچہ خوارج اس مسئلہ میں جاہل تھے؛ لیکن اس بات کی دلیل ضرورہے کہ وہ لوگ توبہ سے متنفر ہونے والے نہ تھے؛بلکہ ان کی نفرت کی وجہ وہ معاملہ تھا جسے خوارج اپنے ذہن میں گناہ تصور کرتے تھے۔ حالانکہ خوارج تمام لوگوں سے بڑھ کر گناہوں اور گنہگاروں سے نفرت کرنے والے؛ اور ان کو گراں خیال کرنے والے تھے۔ حتی کہ وہ گناہوں کی وجہ سے کفر کا فتوی لگاتے ۔ اور اپنے کسی بڑے سے گناہ کا ہونا برداشت
[1] الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب (۴۹) (ح:۲۴۹۹) ابن ماجۃ کتاب الزہد۔ باب ذکر التوبۃ) (ح:۴۲۵۱)۔