کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 639
کیا ارشاد ہے؟ تب مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی:
﴿ہُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ....﴾
(الفتح۴۔۵)
’’وہ اﷲ ہی کی ذات ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکون کو نازل کیا تاکہ ان کے ایمان میں اور اضافہ ہو۔‘‘ [1]
اگر پہلی آیت میں ’’ما تأخر‘‘ سے امت کے گناہ مراد ہوتے توآپ فوراً ارشاد فرما دیتے :’’یہ آیت تو تمہارے لیے ہے۔‘‘
پانچویں وجہ : ایک کم عقل آدمی بھی یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے پوری امت کے گناہ معاف کر دئیے؛ حالانکہ امت کے بعض افراد اپنے گناہوں کی بنا پر دوزخ میں جائیں گے،[ تو پھر مغفرت کیا ہوئی؟]یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ لوگ بعد میں شفاعت کے سبب سے جہنم سے نکالے جائیں گے۔
یہ اور اس جیسی دیگر آیات مانعین کی بہترین تاویلات ہیں ۔ کیونکہ قرآن کریم انبیائے کرام علیہم السلام کی ان کی لغزشوں سے توبہ و استغفار پر دلالت کرتا ہے۔جب کہ اس کے برعکس ان لوگوں کا گمان ہے نہ ہی کسی چیز توبہ کا موجب تھی اور نہ ہی استغفار کا کوئی سبب۔ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی وجہ سے کسی کو فضیلت دی۔ اور نہ ہی ان کی توبہ پر خوش ہوا؛ اور نہ ہی اپنی رحمت سے ان کی مغفرت فرمائی ۔مگر پھر بھی انہوں نے ان تمام تفسیروں اور تاویلات کا بیڑا أٹھالیا جو کہ دراصل تحریف قرآن اور اللہ تعالیٰ پر ایک باطل بات ہیں ۔ جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ۔
نفرت کے وجوب اور اعتماد کے خاتمہ کے قول پر تبصرہ :
[اشکال]:....شیعہ کا یہ قول کہ:’’ انبیاء کو گناہ گار ٹھہرانے سے وہ قابل اعتماد نہیں رہتے اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔‘‘
[جواب]:.... یہ بات درست نہیں ؛نہ ہی نبوت سے پہلے ؛اور نہ ہی اس کے بعد خطاء واقع ہونے کے بارے میں ۔ لیکن اس کی غایت یہ ہوسکتی ہے کہ یہ چیز اس انسان میں موجود ہو جو جان بوجھ کر گناہ کا مرتکب ہو رہا ہو۔ حد سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ : یہ چیز واقعی ہوتی ہے مگر اس وقت جب کوئی جان بوجھ کر گناہ کا ارتکاب کرے۔پس یہ بھی کہا جائے گاکہ: جب کوئی جلیل القدر انسان اپنے گناہ کا معترف ہو کر بارگاہ الٰہی میں توبہ و استغفار کرے اوراللہ سے مغفرت و رحمت طلب کرے ؛اور اس کے لیے اپنی حاجت کا اظہار کرے تو اس سے واضح ہوگا کہ وہ کس قدر صادق ، منکسر مزاج، عجب و کبر سے دور اور دروغ گوئی سے پاک ہے ۔ وہ شخص اس کے
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی ، باب غزوۃ الحدیبیۃ(ح:۴۱۷۲)۔