کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 637
اور فلاں دن ایسا کیا وغیرہ۔‘‘ وہ اقرار کرے گا اور انکار نہ کرسکے گا۔ اور اپنے بڑے گناہوں سے ڈرے گا کہ کہیں وہ بھی پیش نہ ہوجائیں ۔‘‘حکم ہوگا کہ ہم نے تجھے ہر ایک گناہ کے بدلے ایک نیکی دی۔ وہ کہے گا اے میرے پروردگار میں نے تو اور بھی بہت سے گناہ کے کام کئے ہیں جنہیں میں آج یہاں نہیں دیکھ رہا راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنچلی والے دانت ظاہر ہوگئے۔‘‘[1]
[[گناہ گنہگار کو اس وقت نقصان دیتا ہے جو وہ اس سے توبہ نہ کرے]]۔تو پھر وہ لوگ کہاں ہو ں گے جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدلیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو شخص ہلاکت آفرین اعمال سے تائب ہوگا اور مشرف بایمان ہو کر نیک اعمال انجام دے گا تو اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ [[جمہور جو انبیاء علیہم السلام سے صغائر کا ارتکاب جائز سمجھتے ہیں کہتے ہیں : انبیاء علیہم السلام گناہ پر قائم نہیں رہتے]]۔یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے خلاف دشمن کو طیش دلائے تاکہ وہ پھر ان سے جہاد کرکے ان پر غالب آجائے۔ یا پھر شیرکے ساتھ شرارت کرکے بھڑکائے تاکہ اسے قتل کرسکے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ دشمن اس پر غالب آجائے؛ اور شیر اسے چیز پھاڑ کر رکھ دے۔ بلکہ اس کی مثال تو اس آدمی کی طرح ہے جو زہر کا پیالہ پئے ؛ اور پھر اس کے بعد تریاق کا جام بھی لے لے۔ یہ تو سراسر جہالت ہے۔ بلکہ جو کوئی قدرتی طورپر دشمن کے نرغے میں پھنس جائے اور پھر اس پر غالب آجائے؛ وہ اس سے افضل ہے جس کی یہ صورتحال نہ ہو۔ ایسے ہی جس کا اچانک شیر سے آمنا سامنا ہو جائے ؛ اوروہ اس پرغالب آجائے؛ یا جو کوئی اتفاقی طور پر زہر پی لے؛ اور پھر تریاق لے لے؛ اوروہ زہر کو پھیلنے سے روک دے؛ تو اس انسان کا بدن اس آدمی کی نسبت زیادہ صحیح ہوگا جس نے تریاق نہ پیا ہو۔
یہ جو صورت بیان کی جارہی ہے اس میں تو ان کا کمال ہے،کیونکہ توبہ کرنے سے ان کے اعمال میں اور اضافہ ہوتا ہے۔اور اعمال کا اعتبار تو آخری عمل کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ نصوص و آثار اور اجماع سے مسلک جمہور کی تائید ہوتی ہے۔[ یعنی کتاب و سنت اوراجماع مسلمین اس عقیدہ کی صحت پر دلالت کرتے ہیں ]۔
﴿ لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ﴾کی صحیح تفسیر:
اس عقیدہ کے منکر قرآن کی تحریف کرنے سے بھی باز نہیں آتے؛ وہی بہتان تراشی اور تحریف قرآن ان کا وطیرہ ہے؛ اور قرآن میں تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں ۔مثلاً قرآن کریم کی یہ آیت:
﴿ لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ ﴾ (الفتح:۲)
[1] مسلِم 1؍177؛ ِکتاب الإِیمانِ، باب أدنی أہلِ الجنۃِ منزِلۃ فِیہا . والحدِیث مع اختِلاف یسِیر فِی الألفاظِ بِنفسِ السندِ فِی: سننِ التِرمِذِیِ 4؍112 ؛ کتاب صِفۃِ جہنم، باب ما جاء أن لِلنارِ نفسینِ وما ذکر من یخرج مِن النارِ مِن أہلِ التوحِیدِ۔