کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 636
احسات اور مغفرت میں کمی کرنا ہے۔ [پس یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں ] جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ ہر شخص جو کفر اور گناہوں سے محفوظ ہو، وہ اس شخص سے افضل ہے جو کفر کے بعد مشرف بہ ایمان ہو، ضلالت کے بعد ہدایت یاب ہو اور گناہوں کا مرتکب ہونے کے بعد توبہ تائب ہو تو ایسا شخص یقیناً دین کے اساسی اصول و نظریات کا مخالف ہے۔ یہ مسلمہ صداقت ہے کہ سابقین اولین صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے بیٹوں سے افضل تھے، جنہوں نے دور اسلام میں آنکھ کھولی۔ اس شخص کی حماقت و جہالت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے، جو مہاجرین و انصار کے بیٹوں کو ان کے برابر تصور کرتا ہو۔ بھلا جو شخص اپنی قوت نظر و استدلال اور صبر و توبہ کے بل بوتے پر کفر سے ایمان اور اعمال بد سے نیک اعمال کی جانب متوجہ ہو اس شخص کے مساوی کیوں کر ہو سکتا ہے، جو اپنے آباء و اقارب اور ہم وطنوں کو دین اسلام پر لائے‘ اور امن و عافیت کی زندگی بسر کرتا رہا ہو ۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’ بیشک اس وقت اسلام کے کڑے ایک ایک کرکے ٹوٹنا شروع ہوجائیں گے جب اسلام میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو جاہلیت کو نہ پہچانتے ہوں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا (69) یُضَاعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَانًا (69) اِِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا﴾ (الفرقان 68۔70) اور وہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔ اس کے لیے قیامت کے دن عذاب دگنا کیا جائے گا اور وہ ہمیشہ اس میں ذلیل کیا ہوا رہے گا۔مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا، نیک عمل تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ صحیح مسلم میں حضرت ، ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ میں اس آدمی کو جانتا ہوں جو جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا اور سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا ۔وہ ایک آدمی ہوگا جو قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ:’’ اس کے چھوٹے گناہ پیش کرو اور بڑے گناہ مت پیش کرو۔‘‘ چنانچہ اس پر اس کے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ:’’ فلاں دن تو نے یہ کام کیا