کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 633
اس میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ ان کے پیروکاروں کا غلو اورشرک انہیں بشریت کے دائرہ سے نکال کر خدا بنا دیتا ہے ۔ بلکہ بعض امور میں [بعض شیعہ اپنے ائمہ کو ]خداسے بھی افضل قرار دیتے ہیں ۔جیسا کہ مشرکین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِھِمْ وَ ھٰذَا لِشُرَکَآئِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَآئِھِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَ مَا کَانَ لِلّٰہِ فَھُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَآئِھِمْ سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ﴾[الانعام ۱۳۶]
’’اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے ان چیزوں میں سے جو اس نے کھیتی اور چوپاؤں میں سے پیدا کی ہیں ، حصہ مقرر کیا، پس کہا یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، ان کے خیال کے مطابق اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے، پھر جو ان کے شرکا کے لیے ہے سو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے سو وہ ان کے شریکوں کی طرف پہنچ جاتا ہے۔ برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں ۔‘‘
[1]
[1] مالا بد من ذکرہ۔۔۔ ‘‘
اسی بنا پر انہوں نے ایک قصہ گھڑ کر روایت کرنا شروع کردیا کہ:’’ امیر المومنین باہر نکلے اور ان کے ساتھ حضرت ابو بکر،حضرت عمر اور مہاجرین و انصار کی ایک جماعت بھی تھی۔ آپ بقیع پہنچ کر ایک بلند جگہ پر کھڑے ہوگئے۔ پھر جب سورج طلوع ہوا تو علی علی علیہ السلام نے کہا: اے اﷲ کی نئی مطیع وفرمانبردار مخلوق !السلام علیک۔ تو انہوں نے آسمان سے گنگنا ہٹ سنی جو ایک کہنے والا جواب دے رہا تھا: ’’وعلیک السلام یا اوّل یا آخر یا ظاہر یا باطن یا من ھو بکل شی ء علیم ‘‘!!
’’ اے اول وآخر، ظاہر وباطن، اے ہر چیز کو جاننے والے آپ پر بھی سلام ہو۔‘‘[کتاب سلیم بن قیس، ص ۴۵۳۔ الفضائل، ص ۷۰ ؛ خبر کلام علی مع الشمس۔ یہ کتاب شیخ شاذان بن جبرئیل قمی کی تصنیف ہے۔]
ان کا عقیدہ ان کی بنیادی کتب اور معتمد مصادر میں موجود ہے۔ انھوں نے ایک اور جھوٹی روایت بھی بیان کی ہے : اﷲ تعالیٰ نے علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں فرمایا: ’’اے محمد! علی اول ہے علی آخر ہے اور وہ ہر چیز بخوبی جانتا ہے۔ ‘‘ تو انہوں نے عرض کی: ’’اے میرے رب!کیا یہ صفات تو تیری نہیں ؟۔۔۔ ۔ ‘‘ [بصائر الدرجات الکبری ۲؍۴۷۵۔ ح؍۳۵۔ باب النوادر في أئمۃ علیہم السلام و أعاجیبہم۔ بحار الأنوار ۱۸؍۳۷۷؛ ح؍۸۲۔]
پھر اسی بات کا ان کی آیت عبدالحسین العاملی نے ببانگ دہل اعلان کر دیا اور بولا :
اَبَا حَسَنٍ اَنْتَ عَیْنُ الإِْلٰہِ وَ عُنْوَانُ قَدْرَتِہِ السَّامِیَۃْ
وَ اَنْتَ الْمُحِیْطُ بِعِلْمِ الْغُیُوْبِ فَہَلْ عِنْدَکَ تَعْزُبُ مَنْ خَافِیَۃْ
وَ اَنْتَ مُدَبِّرُ رَحَی الْکَائِنَاتِ وَعِلَّۃُ اِیْجَادِہَا الْبَاقِیَۃْ
لَکَ الْأَمْرُ اِنْ شِئْتَ تُنْجِیْ غَدًا وَ اِنْ شِئْتَ تَسْفَعُ بِالنَّاصِیَۃْ
’’اے ابو الحسن ! تو الٰہ کی انکھ ہے یا تو عین الٰہ ہے اور اس کی بلند قدرت کا پتا اور ایڈریس ہے۔اور تو غیبوں کے علم کا احاطہ کرنے والا ہے کیا جو چیز مخفی ہے وہ تجھ سے پوشیدہ رہ سکتی ہے۔‘‘ ’’ اور تو کائنات کی چکی کا مدبر ہے اور اس کی باقی رہنے والی ایجادات کا باعث ہے۔سارا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے کل قیامت کو اگر تو چاہے تو نجات دے دے اور اگر تو چاہے تو پیشانی سے گھسیٹ لے۔‘‘