کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 632
٭ پس اس جیسے لوگ جب یہ کہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ پر ان کے کسی فعل کے انجام کا مخفی رہنا جائز نہیں ہے ؛ تو یقیناً یہ لوگ بشر کو تو پاک اور منزہ مانتے ہیں ۔ مگر اس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ سے غلطی ہو جانے کو جائز سمجھتے ہیں ۔ ایسے ہی ہشام بن حکم ؛ زرارہ بن اعین اور ان کے امثال و ہمنواؤں کا حال ہے جو کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو بھی جانتے ہیں جن کا انہیں پہلے سے علم نہیں تھا۔
اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ ایسے کہنا رب سبحانہ وتعالیٰ کے حق میں سب سے بڑا نقص اور کوتاہی ہے۔ اور پھر جب وہ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ: بیشک ائمہ اور انبیاء علیہم السلام سے ان کی رائے کے خلاف ظاہرہوسکتا ہے۔ تو اس صورت میں وہ ان ہستیوں کو اس وقت تک کے لیے لاعلم قرار دیتے ہیں جب تک وہ اس کی خبر نہ حاصل کرلیں ۔ اور اس چیز کو انبیاء کے حق میں جائز کہتے ہیں ۔
اور جہاں تک غالی شیعہ کا تعلق ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا مانتے ہیں ؛ اور کچھ آپ کونبی مانتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں کہ جبریل امین نے پیغام پہنچانے میں غلطی کی ۔ یہ معاملہ تو یہاں پر ذکر کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔[1]
[1] اپنے اصل کے اعتبارسے’’ البداء‘‘ گمراہ کن یہودی عقیدہ ہے ،حالانکہ خود یہودی نسخ کے قائل نہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ نسخ سے البداء لازم آتا ہے۔[سفر التکوین، الفصل السادس فقرہ: ۵۔ سفر الخروج: فصل: ۳۲۔ فقرہ: ۱۲۔ ۱۴ سفر القفاۃ: فصل ثانی: فقرہ: ۱۸۔ وغیرہ۔ مزید دیکھیے: مسائل الامامۃ: ۷۵۔]
البداء کا عقیدہ سب سے پہلے شیعہ فرقے السبیئہ میں منتقل ہوا تو وہ سب اسی عقیدے کے قائل ہوگئے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کو بہت ساری چیزوں کا انکشاف ہوتا ہے(یعنی اﷲ تعالیٰ کو بہت سارے حالات و واقعات کا پہلے علم نہیں ہوتا۔ جب وہ واقع ہو جاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کو ان کا علم ہوتا ہے۔ ‘‘[ دیکھیے: التنبیۃوالرد: ۱۹۔]
البداء شیعہ عقیدے کے اصولوں میں سے ایک ہے۔ لہٰذا روایت کرتے ہیں کہ ابو عبد اﷲ نے فرمایا: البداء جیسی اﷲ کی کوئی اور عبادت نہیں ہے۔‘‘[أصول الکافی: ۱؍ ۱۰۴۔ ۱۰۵۔ کتاب التوحید۔ح :ا ۔ باب البداء۔ التوحید: ۳۲۲ ۔ح:ا باب البداء۔ بحار لأنوار: ۴؍ ۱۰۷۔ح: ۱۹۔ باب البداء والنسخ۔ اس میں ۷۰ روایات ذکر کی ہیں۔]
مزید روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:’’ اگر لوگوں کو عقیدہ البداء کا اجر و ثواب معلوم ہوجائے تو وہ ہر وقت البداء کے متعلق گفتگو کریں ۔‘‘ [أصول الکافی:۱؍ ۱۰۶۔ التوحید ۳۳۴۔ح: ۷۔ بحارالأنوار: ۴؍ ۱۰۸۔ ح: ۲۶]
یہ عقیدہ شیعہ علماء کے نزدیک متفقہ عقیدہ ہے۔ وہ کہتے ہیں :’’ شیعہ علماء نے البداء کو اﷲ تعالیٰ کی صفات میں شامل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘‘ [أوائل المقالات: ۴۶۔ القول فی الرجعۃ والبداء ....۔‘‘]
شیعہ مذہب سبائیہ کا عقیدہ شامل ہے جس کی بنا پر وہ حضرت علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ رب مانتے ہیں ۔اس میں یہ لکھا ہے کہ شیعی شیوخ حضرت علی علیہ السلام کی نداء ان کلمات کے ساتھ لگاتے ہیں : ’’ یا اوّل یا آخر یا ظاہر یا باطن یا من ھو بکل شی ء علیم ‘‘!!
’’اے اول، اے آخر، اے ظاہر، اے باطن، اے ہر چیز کو جاننے والے ۔۔۔‘‘ سلیم بن قیس الہلالی کی کتاب میں حضرت علی علیہ السلام کو انھیں القابات کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے‘‘: ’’ یا اوّل یا آخر یا ظاہر یا باطن یا من ھو بکل شی ء علیم ‘‘!
الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، ج ۲؍۱۵۲۔ رجال الکشی:۲؍ ۱۰۰۔ح:۴۴۱ (سلیم بن قیس الھلالی ) مزید دیکھئے: تہذیب الأحکام: ۹؍۲۱۷۴۔ کتاب الوصایا، باب الوصیۃ و وجوبھا، ح:۱۴۔ وسائل الشیعۃ:۷۲؍۱۰۱۔حدیث: ۷۸، باب وجوب العمل بأحادیث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ بحارالأنوار:۱؍۷۹ ، الفصل الخامس: فی ذکر بعض(