کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 631
دوسرا فرقہ:....ان کا عقیدہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کسی بھی طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا جائز نہیں ۔ اور نہ ہی أئمہ کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؛ کیونکہ یہ تمام اللہ تعالیٰ کی حجتیں ہیں ؛جو خطاء اور لغزش سے معصوم ہوتے ہیں ۔ اگر ان کے لیے سہو اور معاصی کے ارتکاب کو جائز تسلیم کرلیا جائے تو پھر ائمہ اور ان کے مقتدیٰ اس جواز میں برابر ہوئے۔ جیسا کہ یہ مامومین کے لیے جائز تسلیم کرتے ہیں ۔ اس جواز کی صورت میں پھر مامومین کو ائمہ کی ضرورت ہی نہ رہے گی کیونکہ یہ دونوں برابر ہیں ۔کیونکہ سہو و نسیان کا صدور ان تمام سے جائز ہے۔[1] مزید برآں بہت سے شیعہ علماء اللہ تعالیٰ کو نقائص سے موصوف کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بعض کی حکایات بیان کی جاچکی ہیں ۔ سویہ زرارہ بن اعین اور اس کے ہمنواء ہیں ۔ جو کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ پر بداء کا ہو جانا جائز ہے۔ اوریہ کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا حکم دیتے ہیں ؛ اور ان پر ایسی چیز واضح ہوتی ہے جسے وہ پہلے سے نہیں جانتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنی غلطی کے ظاہر ہونے پر اپنے فیصلہ کو توڑ دیتے ہیں ۔[2]
[1] فَلاَ تَنسٰی اِِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ ﴾ ۔[الأعلی۶۔۷] ’’ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا ۔مگر جو اللہ چاہے۔‘‘ عیون أخبار الرضا: ۱؍۲۱۹۔ ج:۵۔ باب ماجاء عن الرضاع ۔۔۔۔۔‘‘ بحار الأنوار: ۲۵؍۳۵۰۔ ج:۱، (باب نفي السہو عنہم علیہم السلام)۔ یہ واضح رہے کہ : متقدمین شیعہ علماء اس عقیدے سے برأت کا اظہار کرتے آئے ہیں بلکہ اس عقیدے کے قائلین کو کافر قرار دیتے تھے اور انہوں نے بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سہو کے متعلق ثابت روایات کو رد کرنا دین شریعت کو رد کرنے کا پیش خیمہ ہے ۔ شیعہ شیخ ابن بابویہ لکھتا ہے :’’بے شک غالی اور مفوضہ، ان پر اﷲتعالیٰ کی لعنت ہو، یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سہو کا انکار کرتے ہیں ۔۔۔ اگر اس مسئلے میں آنے والی روایات کو رد کرنا جائز ہوتا تو تمام قسم کی روایات کو رد کرنا جائز ہوتا اورر وایات کو رد کرنا در حقیقت دین و شریعت کو رد کرنا ہے۔‘‘[ من لا یحضرہ الفقیہ: ۱؍۱۶۹، ۱۷۰۔ (أبواب الصلاۃ و حدودھا : ج: ۴۸، باب أحکام السہو في الصلاۃ) ۔ دیکھئے بحار الأنوار: ۱۷؍۱۱۱۔ باب سہو۔۔۔‘‘] جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ متاخرین شیعہ اس مسئلے کو ضروری اور دینی ضروریات میں سے شمار کرتے ہیں ۔ اور ضروریات دین کا منکرکافر ہے۔ جیسا کہ تذکرہ ہو چکا ہے۔یہاں تک کہ شیخ شبر کہتا ہے : جوکوئی انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سہو کو جائز سمجھے اس سے اس پر کفر واجب ہوتا ہے۔‘‘[حق الیقین في معرفۃ أصول الدین ۱؍۱۳۵ کتاب النبوۃ؛ الفصل الثاني العصمۃ]  اﷲ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر حجت صرف امام کے ذریعے سے ہی قائم ہوگی۔ ان کے علامہ الکلینی بیان کرتے ہیں کہ: ’’ باب أن الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ إلا بإمام۔‘‘[اصول الکافی: ۱؍ ۱۲۶۔ کتاب الحجۃ۔ اس میں ۴ روایات ذکرکی ہیں ۔] اﷲ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر حجت صرف امام کے ساتھ قائم ہونے کاباب۔‘‘ پھر ابو عبد اﷲ پر بہتان باندھتے ہوئے روایت کی ہے؛ فرمایا:ہماری عبادت ہی کی بدولت اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہوئی اور اگر ہم نہ ہوتے تو اﷲتعالیٰ کی عبادت نہ ہوتی۔‘‘[ اصول الکافی: ۱؍ ۱۳۸۔ کتاب الحجۃ، ح: ۶۔ باب أن الأئمۃ ولاۃ أمراﷲ۔۔ ‘‘ التوحید: ص ۱۵۲، ح ۸، باب تفسیر قول اﷲ عز وجل (کل شی ھالک الا وجھہ )۔] نیز انہوں نے فرمایا :’’اور اگر ائمہ نہ ہوتے تو اﷲ کی معرفت بھی نہ ہوتی۔[اصول الکافی: ۱؍۱۳۹، حدیث نمبر ۲۔] جبکہ ملاں مجلسی نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ:’’ اگر ائمہ نہ ہوتے تو رحمن کی عبادت کا طریقہ بھی معلوم نہ ہوسکتا۔‘‘ بحارالأنوار: ۳۵؍ ۲۹،حدیث نمبر: ۲۴۔ باب تاریخ ولادتہ وحلیتہ .... ‘‘ [2] شیعہ عالم مجلسی کے نزدیک البداء کے دو معانی ہیں : ۱: کسی چیز کا ظاہر اور منکشف ہونا۔ ۲: نئی رائے کا پیدا ہونا۔ [بحارالأنوار: ۴؍ ۱۱۴۔ ۱۲۲( باب البداء و النسخ ۔] (