کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 63
سے تھا؛ جسے ساباط کی طرف ملک بدر کیاتھا۔اور عبد اللہ بن یسار کو حاذر[1] کی طرف ملک بدر کیا۔ رافضیوں کا فتنہ بھی یہودیوں کی طرح ہے۔[اس کی وجہ ان کے عقائد میں یگانگت ہے ۔ مثال کے طور پر:] ۱۔ یہودی کہتے ہیں کہ :’’بادشاہت صرف آل ِ داؤد میں ہی ہوسکتی ہے۔ جب کہ رافضی کہتے ہیں : ’’امامت صرف آل علی بن ابی طالب میں ہی ہوسکتی ہے۔ ‘‘ ۲۔ یہودی کہتے ہیں : ’’جہاد اس وقت تک نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ مسیح منتظر نہ نکلے اور آسمان سے تلوار اترے ۔‘‘ رافضی کہتے ہیں : ’’جہاد فی سبیل اللہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ مہدی منتظرکا خروج ہو؛ اور آسمان سے ایک آواز لگانے والا آواز لگائے ۔‘‘ ۳۔ یہودی نماز مغرب میں تاخیر کرتے ہیں یہاں تک کہ ستارے آپس میں مل جائیں ؛ رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں ۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث میں ثابت ہے آپ نے فرمایا: ’’ میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک یہ نماز مغرب میں ستاروں کے مل جانے تک دیر نہ کرنے لگ جائیں ۔‘‘[2] ۴۔ یہود قبلہ سے کچھ ہٹ کر نماز پڑھتے ہیں ‘ ایسے ہی رافضی بھی کرتے ہیں ۔ ۵۔ یہود نماز میں سستی کرتے ہیں ‘ ایسے ہی رافضی بھی سستی برتتے ہیں ۔ ۶۔ یہودی نماز میں اپنے کپڑے لٹکا کر رکھتے ہیں ؛ رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں ۔ ۷۔ یہود کے ہاں عورتوں کی عدت نہیں ہے۔ ایسے ہی رافضہ کے ہاں بھی ہے۔ ۸۔ یہودیوں نے تورات میں تحریف کی ؛ رافضیوں نے قرآن میں تحریف کی۔ ۹۔ یہودی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں ‘رافضی بھی ایسے ہی کہتے ہیں ۔ ۱۰۔ یہودی اہل ایمان کو اخلاص کے ساتھ سلام نہیں کرتے بلکہ [السلام علیکم کے بجائے ] السام علیکم [ تم پر موت ہو] کہتے ہیں ۔ اور رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔ ۱۱۔ یہودی جری اورمرماہی [ مچھلی کی اقسام ] نہیں کھاتے ؛ ایسے ہی رافضی بھی کرتے ہیں ۔ ۱۲۔ یہودیوں نے خر گوش کواور ’’تِلی ‘‘کو حرام قرار دیا ؛ رافضہ نے بھی ایسے ہی کیا۔ ۱۳۔ یہودی موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں سمجھتے۔ رافضہ بھی ایسے ہی نظریہ رکھتے ہیں ۔
[1] الدین ص ۷۱۔ الفرق بین الفرق ص ۱۴۳۔ الشیعۃ و التشیع از علامہ ظہیر ص ۴۶۔] ابن طاہر البغدادی نے اپنی کتاب [الفرق بین الفرق ص ۱۸۔]پر کہا ہے: سبئیہ وہ سب سے پہلا فرقہ ہے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اپنی بدعت کا اظہار کیا۔ان میں سے بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: آپ ہی خدا ہیں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے بعض کو جلا ڈالا؛ اور بعض کو ساباط کی طرف ملک بدر کردیا۔  ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان البغدادی ‘ ۳۸۵ھ میں انتقال ہوا ؛ دیکھیں : تذکرۃ الحفاظ ۳؍۱۸۳۔ [2] سابقہ حاشیۃ] رواہ أبو داؤد في السنن ۱؍۱۶۹؛ وابن ماجۃ ۱؍۲۲۵۔ وأحمد في المسند ۴؍۱۴۷۔