کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 629
سے مخلوق حاصل ہوئی؛ اوریہ سلسلہ زوال پذیر نہیں ہوا۔ اور ان میں سے جو تسلسل کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں :’’بیشک جو تسلسل ممنوع ہے؛ وہ مؤثرات کا تسلسل ہے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ فاعل کے لیے بھی ایک فاعل ہو؛ جوغیر متناہی طور پر آخر تک چلتا جائے۔خواہ اسے علت کی علت تعبیر کریں یا مؤثر کے لیے مؤثر کہہ لیں ۔یا یوں کہا جائے کہ: فاعل کا فاعل ۔یہ تسلسل صریح عقل کے خلاف ہے اسی وجہ سے باتفاق علماء یہ تسلسل ممنوع ہے؛ جیسے کہ ممنوعہ دوردور ِقبلی ہے۔ آثار میں تسلسل یہ ہے کہ کوئی بھی چیز تب تک نہیں ہوتی جب تک اس سے پہلے کوئی دوسری چیز نہ ہو۔ اس وقت نہیں ہوسکتی جب تک اس کے بعد کوئی دوسری چیز نہ ہو۔ اس مسئلہ میں لوگ تین اقوال رکھتے ہیں : (۱)۔ یہ کہا گیا ہے کہ: ماضی و مستقبل میں یہ ممنوع ہے ۔ (۲)۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماضی ومستقبل میں بھی جائز ہے۔ (۳) یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ماضی میں ممنوع مستقبل میں جائزہے۔ مطلقاً جواز کا قول سلف، ائمہ حدیث اور جمہور فلاسفہ کا قول ہے؛ جو حدوث عالم اور اس کے قدم کے قائل ہیں ۔دونوں گروہوں کے دلائل کسی دوسری جگہ بیان ہو چکے ہیں ۔ ہم نے اصول دین میں مذکور کلام سے دگنی بحث کر دی ہے اور تمام اقوال پر تنبیہ کر دی ہے۔ ٭٭٭