کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 628
﴿ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (اعراف 54)
’’اور آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ؛ پھر وہ عرش پر مستوی ہو گیا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ثُمَّ اسْتَوَی اِِلَی السَّمَآئِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًافَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَائِعِیْنَ ﴾ (فصلت 11)
’’پھر وہ آسمان کی طرف مستوی ہوا جو دھواں تھا سو اس نے اس سے اور زمین سے کہا تم دونوں چاہتے یا نہ چاہتے آؤ ان دونوں نے کہا ہم اطاعت کرتے ہوئے آئیں گے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﴾ (اعراف 11)
’’ہم نے تمہیں پیدا کیا۔ پھر ہم نے تمہیں صورتیں دیں پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلاَلَۃٍ مِّنْ طِینٍ oثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ o ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَئْنٰـہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ﴾(مؤمنون 12 14)
’’ہم نے انسان کو چکنی مٹی سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے ایک مضبوط جگہ میں نطفہ بنایا پھر ہم نے نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنایا پھر اس لوتھرے کو گوشت کی بوٹی بنایا پھر اس بوٹی میں ہڈیاں پیدا کیں پھر ان پر گوشت چڑھایا پھر اسے دوبارہ اٹھائیں گے اللہ بہت بابرکت اور بہترین تخلیق کار ہے۔‘‘
اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں ۔
یہ لوگ لازم ٹھہراتے ہیں کہ امور اختیاریہ اس کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ؛ مثلاً :خلق، رضا، غضب، کلام وغیرہ؛ جو نصوص سے ثابت ہیں ۔ اور قرآن میں تین سو سے زیادہ مواقع ان کے عقیدہ کے موافق ہیں اوراحادیث توبہت زیادہ ہیں ؛ اوراس بارے میں سلف صالحین سے منقول اثار متواتر ہیں ۔ فلاسفہ میں سے اکثر بڑے چوٹی کے علماء کا یہی قول ہے۔ پھر تسلسل کے متعلق ان حضرات کے دو قول ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :’’ مخلوق، تخلیق سے حاصل ہوتی ہے، اورتخلیق اس کی قدرت و مشیت سے حاصل ہوتی ہے؛ کسی دوسری خلق کی محتاج نہیں ہوتی۔وہ اپنے مخالفین سے کہتے ہیں :’’ جب آپ کے ہاں منفصل مخلوقات کا وجود فقط قدرت و مشیت اور فعل غیر قائم بہٖ کے ذریعے جائز ہیں تو فقط قدرت وارادہ سے فعل کا جواز تو بالاولیٰ ہوا۔اوران میں سے جو تسلسل کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں :’’ بذات خود قدیم قدرت اور قدیم ارادہ نے اس کو واجب کردیا تھا جو فعل اور ارادہ حادث ہوا؛ اور اسی