کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 627
ہیں ۔ سلف اور جمہوراہل سنت و الجماعت کا[ان لوگوں کے ساتھ] یہی اصل بنیادی اختلاف ہے۔ لیکن معتزلہ نے اشاعرہ (اور ان کے ہم خیالوں کو) اس اصل میں ان کے تناقضات کی وجہ سے کمزور کر دیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے صفات فعلیہ کا اثبات کیا ہے۔ جبکہ ان کے نزدیک فعل اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم نہیں ہوتا۔ اس مسئلہ میں اشاعرہ نے جھمیہ اور معتزلہ کی اتباع کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فعل قائم ہونے کی نفی کرتے ہیں ۔لیکن وہ لوگ تو اشاعرہ کے برعکس صفات کی بھی نفی کرتے ہیں ۔ معتزلہ کا خلق میں بھی اختلاف ہے کیا یہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق؟ جب وہ کہتے ہیں غیر مخلوق کہتے ہیں ؛ تو کہتے ہیں :’’ معنی بلا محل قائم ہے۔ جیسا کہ بصریوں نے ارادہ میں یہ قول گھڑلیا ہے۔ اور کبھی کہتے ہیں اس کے کئی معانی ہیں ؛ جن کی آن واحد میں انتہاء ممکن نہیں ۔ جیسا کہ معمر اور اس کے اصحاب کہتے ہیں انہیں اصحاب المعانی کہا گیا ہے۔ اور کبھی کہتے ہیں :’’وہ مخلوق کے ساتھ قائم ہے۔‘‘ اشعری اور ان کے ہم خیالوں کی خلق کے مخلوق ہونے کی دلیل یہ ہے؛ وہ کہتے ہیں :’’ اگر اس کے علاوہ کوئی چیز ہے توپھر یا قدیم ہے یا محدث۔ اگر قدیم ہے تو اس سے مخلوق کا قدیم ہونا لازم آتا ہے اور یہ اضطراری طور پر اس چیز میں محال ہے جس کا حدوث اضطراراً معلوم ہو۔ اوراس کی دلیل یہ ہے کہ: جس چیزکا حدوث دلیل کی روشنی میں معلوم شدہ ہے؛ اور اگر محدث ہے تو مخلوق ہے۔ چنانچہ ایک خلق دوسری خلق کی محتاج ہوئی۔ اس سے تسلسل لازم آتاہے۔مزید برآں اس سے حوادث کا قیام لازم آتا ہے؛جوکہ نفس امر میں ان کی بنیاد ہے۔ رازی کو تو مسلمان فرقوں کے اقوال؍عقائد سے آگاہی ہی نہیں ؛ چہ جائیکہ معتزلہ، اشاعرہ، اور بعض شیعہ اور کرامیہ کے اقوال سے آگاہی ہو۔ اسی لیے جب انہوں نے اس مسئلہ کو ذکر کیا اس میں ماوراء النھر فقہاء کا اختلاف ذکر کیا ان کا قول وہی ہے جو جمہور مسلمان جماعتوں کا ہے۔ جمہور نے ان کے اس بنیادی اصول کے کئی لحاظ سے جوابات دئیے ہیں ؛ ہر قوم نے اپنی استطاعت کے مطابق کام کیا ہے۔ ایک جماعت کا کہنا ہے:’’ بلکہ خلق سے مراد تکوین ہے؛ اور فعل قدیم ہے۔ مکوّن مفعول محدث ہے ؛کیونکہ ان کے ہاں تخلیق کے ساتھ حوادث قائم نہیں ہوتے۔یہ قول بہت سے احناف، حنابلہ کلامیہ اور صوفیہ وغیرہ کابھی ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ:’’ اس سے مکوّن کا قدیم ہونا لازم آتا ہے۔‘‘ تو کہتے ہیں : ’’اس میں ہمارا وہی جواب ہے جو تمہارا ارادہ ازلیہ میں ہے؛ تم کہتے ہو:’’ وہ قدیم ہے اگرچہ مراد محدث ہے ؛ اسی طرح تکوین قدیم ہے اگرچہ مکوّن محدث ہے۔‘‘ ایک جماعت کہتی ہے:’’ خلق اور تکوین حادث ہیں [یہ اس وقت سے ہیں ] جب اللہ تعالیٰ کسی شے کی تخلیق یا تکوین کا ارادہ کیا ہے۔‘‘ یہ اکثر اھل الحدیث اور کئی اہل کلام ، فقہاء اور صوفیاء کا مذہب ہے۔ ان کا کہنا ہے اللہ تعالیٰ نے افعال کے وجود کا ذکر ایک ایک کر کے کیا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: