کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 626
اس قول کے؛ اور ماقبل قول کے قائل ہوں تو اس سے لازم آتا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کا مخلوق سے کلام، موسی سے کلام اور فرشتوں سے کلام فقط انہیں بتانے کے لیے نہیں ہو گا کیونکہ وہ تو ازل سے متکلم ہے اور ابد تک متکلم رہے گا۔ اور نصوص کی دلالت اس کے برعکس ہے۔ اور ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ :’’وہ پہلے متکلم نہیں تھا بعد میں متکلم بنا۔ کیونکہ اس سے تو نقص کے بعد کمال ہے۔ اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ ان حوادث کا محل ہے جنہوں نے اسے نقص کے بعد کامل کیا ۔پھر اس کمال کے حدوث کے لیے کسی سبب کا ہونا ضروری امر ہے۔ جبکہ دوسرا قول پہلے قول جیسا ہے؛ اس میں بلاسبب کمال کی تجدید ہے۔ اور اس سے ازل سے دائمی نقص لازم آتا ہے یہاں تک کہ اسے بلا سبب تجدد حاصل ہوا۔ نیز اس عقیدہ میں اس کی ذات سے صفات کمال کی تعطیل لازم آتی ہے۔ رہا دوام حوادث؛تو اس کامعنی یہاں پر یہ ہے کہ :وہ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ یہ اس کا دوام ِکمال، صفاتِ جلال اوردوام افعال ہے۔ اور اس طرح یہ کہنا ممکن ہوتاہے کہ:’’ یہ عالم اور اس میں موجود تمام مخلوقات حادث ہیں ؛ پہلے نہ تھیں بعد میں وجود پذیرہوئیں ۔کیونکہ ان کے حدوث کا سبب وہ افعال اور کلمات یا دیگر امورہونگے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔اس سے حوادث کے حدوث کا سبب سمجھا جاسکتا ہے۔ اس سے کسی بھی چیز کے وجود کے قِدیم ہونے کا قول بھی ممنوع قرار پائے گا۔ کیونکہ اگر وہ قدیم ہے اس کا مبدع (بنانے والا) واجب الوجود ہے۔ تو اس کا موجب اور مقتضیٰ لازم ٹھہرے گا کہ جب خالق کسی فعل کا فاعل ہے ؛تو وہ اپنے اختیار اور ارادے اور مشیت سے کہتا ہے ۔اس سے یہ بھی ممنوع ٹھہرا کہ کوئی چیز بذات خود موجب ہو۔ چنانچہ عالم میں کسی بھی چیز کاقدیم ہونا ممنوع ٹھہرا۔ جب فاعل مختار کی طرف سے یہ ممنوع قرار پایا کہ اس سے جڑی ہوئی کوئی چیز؛ یا اس سے جدا چیز؛کا فعل ظہور پذیر ہو؛ اور اس کے ساتھ ہی وہ کوئی فعل اختیاری اس کے ساتھ قائم نہ ہو۔ چنانچہ یوں اس کے ساتھ اختیاری فعل کا قیام بطریق اولی ممنوع قرار پاتاہے۔ کیونکہ اس تقدیر کے مطابق کوئی مفعول اس وقت تک نہیں پایا جاسکتا حتی کہ ایسا فعل اختیاری نہ پایا جائے جو اس کی قدرت اور مشیت سے ہوا ہو۔ پہلی تقدیر کے مطابق اس میں فعل اختیاری اور قدرت و مشیت کا پایا جاناہی کافی ہے۔ معلوم ہوا جو قدرت، مشیت اور اس کے ساتھ قائم فعل اختیاری [پر موقوف ہو]اس کا حدوث اور تأخر زیادہ حق رکھتا ہے بہ نسبت اس کے جس کا کچھ حصہ ان چیزوں پر موقوف ہے۔ ان امور پر تفصیلی کلام کسی اور مقام کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔ اکثر لوگ ان میں سے بہت سارے اقوال کو جانتے نہیں ۔ اسی وجہ سے ان میں قیل و قال بہت زیادہ ہوئی ہے۔اور جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے؛اس میں ان تمام مذاھب کی طرف صرف اشارہ کیاگیاہے۔ وہ اصل فرق جس کی بنیاد پر اہل سنت و الجماعت ؛ حضرات صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ اورحضرات اھل بیت رضی اللہ عنہم اور دیگر تمام ائمہ مسلمین جہمیہ ؛معتزلہ؛اور منکرین صفات سے جدا ہیں ؛ وہ یہ ہے کہ: ’’ اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتی ہیں جو اس کے ساتھ قائم ہیں ۔ اس کی مخلوق کی صفات نہیں