کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 625
یا کوئی بھی کام کرنا ممکن ہی نہ تھا؛پھر بعد میں اس کے لیے کلام کرنا اور کام کرنا ممکن ہوگیا؛اور یہ بھی بغیر کسی ایسے سبب کے ہوگیا جو اس کے حدوث تقاضا کرتا ہو۔ تو آپ کا یہ قول تو صریح عقل اور مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ مسلمان علم یقینی کے طور پر جانتے ہیں کہ :’’اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے قادر ہے۔ قدرت کا اثبات کرنے کے ساتھ مقدور کو ممنوع قرار دینا ناممکن اور دو ضدوں کو جمع کرنا ہے۔ مسلمانوں کا واضح عقیدہ رہا ہے کہ وہ ازل سے قادر ہے؛اس سے واضح ہوتا کہ وہ ازل سے فعل اور کلام پر اپنی قدرت اور مشیت سے قادر ہے۔
اس کے ہمیشہ سے متکلم ہونے اورہمیشہ سے اپنی مشیت سے فاعل ہونے کا عقیدہ سلف صالحین، ائمہ مسلمین حضرات اھل بیت اور دیگر اہل علم جیسے: ابن مبارک؛ احمد بن حنبل،امام بخاری، عثمان بن سعید دارمی اور دیگر حضرات علماء رحمہم اللہ سے منقول ہے۔ اسی طرح امام جعفر بن محمد الصادق سے افعال متعدیہ میں دوام منقول ہے (چہ جائے کہ افعال لازمہ) یہ اس کے احسان کا دوام ہے۔ یہ ان کا اور مسلمانوں کاقول ہے : یا قدیم الاحسان ‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ وہ قدیم سے اس کے ساتھ قائم ہے۔
دھریہ فلاسفہ عالم میں افلاک وغیرہ کے قدم کے قائل ہیں ۔اور یہ اس عالم میں حوادث کی کوئی ابتداء نہیں ۔ اور باری تعالیٰ اس عالم کے لیے موجب بذاتہ ہیں ۔ وہ اپنی قدرت، مشیت سے اس کے فاعل نہیں ؛ اور نہ ہی بذات خود تصرف کرسکتے ہیں ۔جبکہ انبیاء ورمرسلین علیہم السلام کے دین میں یہ بات اضطراری طور پر معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے؛اور ہر مخلوق محدث ہے ۔جس نے اللہ تعالیٰ کی قدامت جیسی قدامت کسی بھی چیز کے لیے ثابت کی؛ تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس کا قول عقل صریح کے ساتھ ساتھ انبیاء ومرسلین علیہم السلام سے ثابت دین کے بھی خلاف ہے۔ آپ نے ایک باطل عقیدہ پر ان کی موافقت کی ہے؛ آپ کہتے ہیں :’’ وہ بذات خود تصرف کر سکتا ہے؛اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی ایسا امر قائم ہے جس پر اسے اختیار اور قدرت حاصل ہے۔ بلکہ آپ نے اسے جمادات کی طرح سمجھ لیا ہے جس کا نہ ہی کوئی تصرف ہوتا ہے اور نہ ہی کام۔ اور انہوں نے اسے ایسی جامد شے کی طرح سمجھ لیا ہے جو کسی کے ساتھ چمٹا اور لٹکا دی جائے۔اور اس چیز میں اس کو خود سے ہٹانے کی استطاعت یا کسی تصرف کا امکان نہ ہو۔پس آپ نے ان کے بعض باطل امور پر ان کی موافقت کی ہے۔ جبکہ ہم نے وہ بات کی ہے جو عقل و نقل کے موافق ہے۔ وہ اپنی قدرت و مشیت کے ساتھ بذات خود فعل پر قادر ہے۔ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے بذات خود کلام کرسکتا ہے۔ اورہم کہتے ہیں : ’’وہ ازل سے صفت کمال سے متصف ہے وہ جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے اس کا کلام مخلوق اور اس سے جدا ہے۔ اس قول کی حقیقت تو یہ ہے کہ وہ کلام ہی نہیں کرتا۔ اور ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ:’’ اس کا کلام ایک ہی چیز ہے۔ امر نہی اور خبر ایک ہی ہیں ۔ اور تورات و انجیل کا معنی ایک ہے۔ امر نہی ایک ہی چیز کی دو صفات ہیں ۔ یہ عقل کے خلاف ہے۔ اور نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں : اصوات ازلی مخالف جداگانہ ہیں ۔ کیونکہ آوازیں دو زمانوں میں باقی نہیں رہتیں ۔ اسی طرح اگر ہم