کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 624
وہ اس کے ساتھ قائم نہ تھے۔ جیسا کہ وہ حوادث روبہ عمل لاتا ہے حالانکہ؛ وہ پہلے ان کا فاعل نہ تھا۔ہمارا قول ہی صحیح ٹھہرا۔ آپ کا قول دونوں لحاظ سے باطل ثابت ہوا۔ اگر آپ ہم سے یہ کہیں گے کہ:’’آپ تسلسل حوادث کے امتناع پر ہمارے ہم خیال ہیں ؛ جو ہماری اور آپ کی عالم کے قِدم[قدیم ہونے] کی نفی کی دلیل ہے۔‘‘ تو ہم کہتے ہیں : ’’ ہماری آپ سے موافقت الزامی ؍ اورجدلی حجت ہے۔ جب ہم نے تسلسل حوادث کے امتناع میں آپ کے عقیدہ کی موافقت کی؛ تو ہم نے یہ بھی کہا ہے :’’ کسی شے کا قبول کرنے والا اس سے اور اس کی ضد سے خالی ہوتا ہے‘‘ یہ عقیدہ آپ کے مخالف ہے۔‘‘اس لیے کہ آپ کہتے ہیں : حوادث کے اس کو قبول کرنے سے تسلسل لازم آتا ہے۔‘‘حالانکہ آپ اس کے قائل نہیں ۔ ہم کہتے ہیں : ’’اگر یہ دونوں مقدمے صحیح ہوں (ہم جن کے موجب کے قائل نہیں تو)؛اس سے ہمارا ان دونوں میں سے ایک میں خطا پر ہونا لازم آتاہے۔ اورجو مسئلہ ہم نے آپ کے فرض کیا کرلیا ہے؛ اس میں ہماری خطاء ؛اس مسئلہ کی نسبت زیادہ الاولیٰ نہیں جس میں ہم آپ کے مخالف ہیں ۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ تسلسل حوادث کے امتناع میں ہم غلطی پر ہوں ؛ نہ کہ اس قول میں : ان القابل للشیء یخلو عنہ وعن ضدہ۔لہٰذا ان دونوں میں سے کسی ایک مسئلہ میں ہماری غلطی تمہارے اس مسئلہ درست ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی جس میں ہم نے آپ کی مخالفت کی ہے۔ اس باب میں زیادہ سے زیادہ ہمارے ہاں کئی جگہ پر تناقض ہوسکتا ہے۔ اوریہ تناقض ہمیں اورآپ کو اور اکثر متکلمین اور ان کے امثال و ہمنواؤں کو شامل ہے جو بھی اس مسئلہ اور جیسے دیگر مسائل میں بات کرتا ہے ۔ جب ہم میں تناقض پایا جاتا ہے ؛ تو ہمارا ایسے قول کی طرف رجوع کرنا جو عقل و نقل کے موافق ہو؛زیادہ اولیٰ ہے ایسے قول کی طرف رجوع کرنے سے جو عقل و نقل کے خلاف ہو۔ پس یہ کہناکہ:’’ متکلم ایسا کلام کرتا ہے جو اس کے ارادے اور مشیت سے متعلق نہیں ہوتا؛ یا اس سے جدا ہوتا ہے؛ اس کے ساتھ قائم نہیں ہوتا؛یہ عقل و نقل کے مخالف ہے۔ اس کے برعکس یہ کہنا کہ: اس کا کلام اس کی مشئیت اور قدرت سے متعلق ہوتا ہے؛ اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ بیشک یہ قول عقل و نقل کے موافق ہے۔ لیکن بسااوقات ہم اس کے لوازم کے قائل نہیں ہوتے؛اس صورت میں تناقض کا شکار ہوجاتے ہیں ۔‘‘ جب ہم میں تناقض پایا جاتا ہے تو لازم ٹھہرتاہے کہ ہم اس قول سے رجوع کر لیں جس میں ہم سے غلطی ہوئی ہے؛ تاکہ اس چیز میں ہمارا اتفاق ہو جائے جس میں ہم حق پر ہیں ۔ہمیں غلطی پر رد کرنے کے لیے حق سے دست بردار نہیں ہوناچاہیے۔پس ہم ان تناقضات سے رجوع کرتے ہوئے اھل الحدیث کا قول ہی اختیار کرتے ہیں ۔ اگر آپ کہیں :’’بلا ابتداء حادث کے بعد حادث کا اثبات؛ یہ دھریہ فلاسفہ کا قول ہے ۔ تو ہم کہیں گے:’’ بلکہ آپ کا قول اللہ تعالیٰ ازل سے ہی کلام سے معطل ہے؛اس کے لیے کچھ بھی کلام کرنا؛