کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 623
کی دلیل نفی ِصفات یا مطلقاً حوادث کے قیام کی نفی کے لیے استعمال کرتے ہیں ؛ جو کہ غلط ہے۔ کیونکہ خاص نفی سے عام نفی لازم نہیں آتی۔اور ایسا بھی نہیں کہ جب آپ اس کی ذات سے نقائص و عیوب کی نفی کرتے ہیں تو اس سے صفات جلال و کمال کی بھی نفی ہو جائے۔ لیکن جو چیز وہ چاہتا ہے اور جیسے مقدر کرتا ہے ؛ اس کے ساتھ قائم ہوتی ہے؛ خواہ وہ اس کا کلام ہو؛ یا افعال وغیرہ ؛ جن پر کتاب و سنت سے دلیل ملتی ہے۔ جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ ان کے قیام کا انکار کرتا ہے ؛ہم اس سے پوچھتے ہیں : کیا آپ کا صفت کے اس کے ساتھ قائم ہونے کا انکار ایسے ہی کرتے ہیں جیسے معتزلہ اس کے منکر ہیں ؟ یا انکار اس وجہ سے کرتے ہیں کہ جس کے ساتھ حوادث قائم ہوں وہ ان سے خالی نہیں ہوتا جیسا کہ کلابیہ کا قول ہے؟ اگروہ پہلی بات کہے؛ تو کلام اصل صفات میں ہے کہ کلام متکلم کے ساتھ قائم ہوتا ہے اس سے منفصل نہیں ہوتا ؛ تو اتنی بات اس باب میں کافی ہے۔ اگر دوسری بات کہے؛ تو ہم کہیں گے:’’ کیا آپ حوادث کے حدوث کو بلا سبب حادث جائز مانتے ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ اسے جائز قرار دیں ؛ (جیسے کہ آپ کا قول ہے)؛ تو اس سے لازم آتا ہے کہ حوادث کا ارتکاب وہ کر رہا ہے جو اس کا فاعل نہیں ؛ اور نہ ہی اس کی ضد کا فاعل ہے۔ جب یہ جائز ہے تو یہ جائز کیوں نہیں کہ ایسی ذات کے ساتھ حوادث قائم ہوں جس کے ساتھ یہ قائم نہ رہ سکتے ہوں ؛اور نہ ہی ان کی ضد کے ساتھ۔ معلوم ہوا فعل قبول سے بڑا اور عظیم ہے۔ جب اس کا فعل بلاسبب حادث جائز ہے تو اسی طرح ان کا محل میں قیام بھی جائز ہے۔ اگر آپ کہیں کسی شے کا قبول کرنے والا حدوث اور اس کی ضد سے خالی نہیں ہوتا۔تو ہم کہیں گے: ’’ ایسا ہونا ممنوع ہے؛ اس کی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔پھر اگر اس کو تسلیم کر بھی لیں تو یہ کہنے والے کے اس قول کی طرح ہے کسی چیز پر قدرت اس کے فعل اور اس فعل کی ضد سے خالی نہیں ہوتی۔ حالانکہ آپ کے بقول وہ ہمیشہ سے قادر ہے، نہ وہ فاعل ہے نہ تارک۔ کیونکہ آپ کے ہاں ترک مقدوراور وجودی امر ہے۔ اور آپ کہتے ہیں : ’’ اس کے قادر ہونے کے باوجود ازل سے اپنی مقدورات میں سے کسی کا فاعل ہونا اس کے حق میں ممتنع ہے۔‘‘ بلکہ تم کہتے ہو:’’ ازل میں قادر ہونے کے باوجود اس کے مقدور کا وجود ممنوع ہے۔‘‘ جب آپ کا قول یہ ہے:’’ تو ازل میں مقبول کا وجود بطریق اولیٰ واجب نہیں آتا۔ بلاشک شبہ مقدورِ مقبول اس کی قدرت کے بغیر نہیں پایا جاتا ۔جبکہ آپ قادر کے وجود کوباوجود مقدور کے امتناعکے قائل ہیں ؛ جبکہ وہ قادر بھی ہے۔ پھر ہم کہیں گے:’’ کسی شے کو قبول کرنے والا اس سے اور اس کی ضد سے خالی نہیں ہوتا ‘‘اس قول سے حوادث کا تسلسل لازم آتا ہے۔ اگر حوادث کا تسلسل ممکن ہے؛ تو اھل الحدیث کا قول صحیح ہے؛ جو کہتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے؛ جیسا کہ ابن مبارک اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسے ائمہ اہل سنت نے کہا ہے۔‘‘ اگر تسلسل حوادث کا ناجائز ہے؛ توپھریہ ممکن ہے کہ اس کے ساتھ حادث قائم ہوں ؛ جبکہ پہلے