کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 622
وغیرہ کا قول ہے۔
جب جمہور آپ کے مخالف ہیں تو اپنے اور اپنے شیعہ ائمہ اور ان کے ہم خیالوں کے مابین جھگڑا مان لیجیے۔ یہ اس بات پر آپ کے موافق ہیں کہ کلام حادّث ہے ۔لیکن وہ ان کے بقول اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے ۔ تو وہ کہتے ہیں :ہم نے اپنی اور تمہاری دلیل یک جا کردی ہے۔ تو ہم کہتے ہیں : عدم کا نہ امر ہوتا ہے نہ وہ نہی بنتا ہے۔ اور ہم نے کہتے ہیں :’’ کلام کا متکلم کے ساتھ قیام ضروری ہے۔‘‘
اگر آپ ہم سے یہ کہیں کہ:’’ ہم نے رب کے ساتھ حوادث کے قیام کا قول جوڑا ہے؛ تو آپ کو جواب ملے گا: ’’ ہاں ! ہمارے اس قول کی تائید عقل اور شرع کرتی ہے۔جو یہ کہتا ہے کہ:’’ اللہ تعالیٰ نہ کلام کرتا ہے نہ ارادہ نہ محبت نہ بغض نہ راضی ہوتا ہے نہ آتا ہے نہ جاتا ہے؛ یہ عقیدہ کتاب اللہ کے مخالف ہے۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام سے ازل سے متکلم ہے؛ تو یہ بات عقل اور کلام اللہ کے خلاف ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَلَمَّا جَآئَ ہَا نُوْدِیَ ﴾ (نحل 8)
’’جب وہ اس وادی میں آیا تو اسے آواز دی گئی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِِنَّمَا اَمْرُہُ اِِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾ (یسں 82)
’’بس اس کا امر جب وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے اس سے کہتا ہے ہو جاتو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
اس میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں :’’ بالجملہ معتزلہ اور شیعہ کی کلام الٰہی کی ہر دلیل مشیت اور قدرت سے متعلق ہے؛اور بیشک وہ جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اور وہ ایک چیز کے بعددوسری چیز کی کلام کرتا ہے۔ تو ہم کہتے ہیں : ’’ ہم بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں ؛اور وہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں جو لوگ کہتے ہیں : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے؛ اوروہ اس کی صفت ہے۔ اور صفت موصوف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی ۔ تو ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے پاس جو بھی حق بات ہے؛ ہم اسے قبول کرتے ہیں ۔اور اس چیز سے دوری اختیار کرتے ہیں جسے عقل اور شریعت دونوں ہی رد کرتے ہوں ۔‘‘
اگر وہ ہم پر اعتراض کریں گے کہ: ’’اس سے لازم آتا ہے کہ حوادث اس کے ساتھ قائم ہو ں ۔‘‘
تو ہم کہیں گے:’’ آپ سے پہلے سلف اور ائمہ میں سے کس نے اس کا انکار کیا ہے؟ قرآن و سنت کی نصوص کے ساتھ ساتھ عقل صریح سے اس کی تائید ہوتی ہے یہ تمام جماعتوں کے لیے قول لازم ہے؛ جو اس کا منکر ہے اسے لازم و ملزوم کا علم ہی نہیں ۔لفظ ’’حوادث‘‘ مجمل ہے بسا اوقات اس سے مراد امراض و نقائص ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات نیند، اونگھ، تھکاوٹ اور زمین و آسمان کی حفاظت میں تھکن وغیرہ سے پاک ہے ؛یہ منصوص علیہ اور اجماعی مسئلہ ہے ۔ پھر بہت سے منکرین صفات (معتزلہ وغیرہ) اس طرح