کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 621
اگرچہ اشعریہ نے معتزلہ کی اتباع میں ایسا کہا ہے؛ لیکن یہ بذات خود غلط ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ میں صفات کا اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس سے جدا ماننا دو مخالف ضدوں کو جمع کرناہے۔ بلکہ ان لوگوں کے اس عقیدہ کی حقیقت یہ ہے کہ فعل رب کی صفت نہیں کیونکہ فعل مخلوق ہے؛ اور مخلوق، خالق کی صفت نہیں ہوسکتی۔ اگر فعل ایسا ہوا جس کا مفعول اس کی صفت ہو؛ تو سب مخلوقات اللہ تعالیٰ کی صفت ٹھہریں گی۔ اس کا تو کوئی بھی عاقل قائل نہیں چہ جائیکہ کوئی مسلمان ایسی بات کہے۔ [کیا فعل اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہوتاہے؟] اگر آپ کہیں : ’’ یہ اس بنیاد پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فعل اس کے ساتھ قائم نہیں ہوتا۔کیونکہ اگر فعل اس کے ساتھ قائم ہو تو اس کے ساتھ حوادث کا قیام لازم آتا ہے۔‘‘ جواب:....جمہور کا آپ کے ساتھ اس اصول میں اختلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:’’ ایسا فعل کیسے متصور ہو سکتا ہے جو فاعل کے ساتھ قائم نہ ہو؟ جبکہ ہم خلق وتکوین اور مخلوق مکون کے درمیان فرق سمجھتے ہیں ؟ یہ جمہور عوام کا قول ہے مثلاً ابوحنیفہ کے شاگرد، یہی بات لغوی رحمہ اللہ وغیرہ؛ اصحاب شافعی رحمہ اللہ نے اہل سنت سے نقل کی ہے اصحاب احمد مثلاً ابو اسحاق بن شاقلا ابوبکر عبدالعزیز ابوعبداللہ بن حامدد، قاضی ابویعلی رحمہم اللہ کا آخری قول ہے۔ ائمہ صوفیہ ، ائمہ اصحاب الحدیث کاقول ہے۔ اسی کو امام بخاری رحمہ اللہ نے، خلق افعال العباد میں علماء رحمہم اللہ سے مطلقاً نقل کیا ہے۔ یہی قول مرجئہ شیعہ اور کرامیہ وغیرہ کی کئی جماعتوں کا ہے۔ پھرجن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ:’’ فعل کا اس کے ساتھ قائم ہوتا ہے‘‘ان میں سے بعض کہتے ہیں : اس کا فعل قدیم اور مفعول متاخر ہے۔ جیسا کہ اس کا ارادہ قدیم اور اس سے مراد متأخر ہے۔ جیسا کہ اصحاب ابوحنیفہ اور احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے ۔اسی کو کلابیہ میں سے ثقفی اور دیگرنے ذکر کیا ہے۔ جبکہ ان کے اور ابن خزیمہ کے مابین اختلاف واقع ہوا تھا۔ ان میں سے کچھ اسے حادث نوع کہتے ہیں جیسا کہ شیعہ، مرجئہ اور کرامیہ کا یہی عقیدہ ہے۔ اور ان میں سے کچھ کہتے ہیں :’’ کلام اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشئیت ساتھ دھیرے دھیرے واقع ہوتا ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ سے صفت کلام سے متصف رہا ہے۔ یہ حادث الاحاد اور قدیم النوع ہے۔ جیسا کہ یہ قول اصحاب الحدیث کے ائمہ وغیرہ اصحاب شافعی، احمد رحمہم اللہ اور دیگر کئی جماعتوں کا ہے۔ ان[شیعہ] میں سے کچھ کے بقول خلق حادث اور قائم بالمخلوق ہے؛ جیسا کہ ھشام بن حکم ؛اور دیگر۔اور ان میں سے کچھ کے بقول وہ قائم بالذات ہے کسی محل میں قائم نہیں ۔ اس کے قائل ابوالھذیل علّاف وغیرہ ہیں ۔ کچھ کے بقول وہ کئی لامتناہی معانی کے ساتھ قائم بالنفس ہے؛ [جو ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتے] یہ معمر بن عبّاد