کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 620
اس کے متعلق بھی فرماتے ہیں :’’ مخلوق سے تو پناہ نہیں لی جاتی ۔جبکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم رضا اور معافات سے پناہ مانگی ہے۔ ائمہ اہل سنت کے ہاں یہ بھی انہی صفات میں سے ہیں جورب تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں ؛ جیسے اس کے کلمات اس کے ساتھ قائم ہیں ؛ یہ ان مخلوقات میں سے نہیں ہیں جو اس سے الگ اور جدا ہیں۔ جو یہ کہتا ہے: متکلم سے کلام جدا ہوتا ہے ۔ پس مرید؛محب ؛ مبغض ؛ راضی ؛ ناراض وہ ہوتا ہے جس کا ارادہ جس کی محبت، جس کا بغض ؛جس کی رضا، جس کی ناراضگی اس سے جدا ہوتی ہیں ؛ وہ کسی بھی حال میں اس کے ساتھ قائم نہیں ہوتی۔ یہ تو ایک غیر معقول بات کہی ہے۔، انبیاء و مرسلین علیہم السلام نے لوگوں کو یہ نہیں بتایا۔ بلکہ ہر سننے والا جس تک انبیاء نے اللہ کی دعوت پہنچائی ہو؛ وہ ضرورت کے تحت جانتا تھا کہ رسولوں کی مراد اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے؛ جو اس سے جدا نہیں ۔اس طرح محبت ورضا اور ارادہ وغیرہ بھی اس سے منفصل نہیں ؛ بلکہ اس کی ذاتی صفات ہیں ۔ جھمیہ اور معتزلہ کہتے ہیں : متکلم، فعل کلام سے بنتا ہے ؛اللہ تعالیٰ نے جب اپنے غیر میں اسے کلام پیدا کر دیا تو وہ متکلم ٹھہرا۔ ٭ ان سے کہا جائے گا: اس مسئلہ میں اختلاف کرنے والے متأخرین کے ہاں تین اقوال ہیں : (۱) متکلم وہ ہے جس نے فعل کلام کیاہو؛ چاہے وہ کلام اس سے منفصل ہو (یہ اس کے قائل ہیں ) ۔ (۲) متکلم وہ ہے جس کے ساتھ کلام قائم ہو؛ اگرچہ وہ کلام اس کے فعل، مشیت اور قدرت سے نہ بھی ہو۔یہ کلابیہ سالمیہ اور ان کے ہم خیالوں کا موقف ہے۔ (۳) متکلم وہ ہے جو اپنے فعل مشیت اور قدرت سے کلام کرے ؛اور وہ کلام اس کے ساتھ قائم ہو۔ یہ قول اکثر اھل الحدیث اور کئی شیعہ، مرحبۂ اور کرامیہ اوردیگر گروہوں کا ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں : کلام موصوف سے منفصل فعل کی صفت ہے؛ نہ کہ ذات کی صفت۔ دوسری قسم والے کہتے ہیں : یہ موصوف کی ذاتی لازمی صفت ہے؛ مشیت اور قدرت سے متعلق نہیں ۔کچھ لوگ کہتے ہیں :’’ یہ ذات اور فعل کی صفت ہے ؛جو ذات کے ساتھ قائم اور مشیت و قدرت سے متعلق ہے۔‘‘ جب بات یہ ہے تو ان کے بقول یہ فعل کی صفت ہے؛ اس میں ایک جماعت کااختلاف ہے۔ اگر ان کے مابین نزاع نہ ہو توان سے کہا جائے گا :’’فرض کریں یہ فعل کی صفت ہے جو قائل و فاعل سے منفصل یا اس کے ساتھ قائم ہے۔ رہی پہلی بات تو وہ آپ کا فاسد قول ہے؛ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صفت موصوف کے اور قول قائل کے بغیر قائم ہو سکے۔ کسی کہنے والے کا یہ کہنا کہ: صفات صفت ذات اور صفت فعل میں منقسم ہیں ۔اور صفت فعل کی تفسیر یہ بیان کی جائے کہ یہ ایسی صفت ہے جو رب سے جدا ہے؛یہ متناقض کلام ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت کیسے ہو سکتی ہے جو کسی بھی حالت میں اس کے ساتھ قائم نہ ہو؛ بلکہ وہ اس سے جدا مخلوق ہے۔