کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 62
گدھے ہوتے، اور اگر پرندوں میں سے ہوتے تو کوّے ہوتے۔ اور اللہ کی قسم ! اگر میں چاہوں کہ وہ میرے گھر کو سونے سے بھر دیں ، اور میں ان کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ایک جھوٹ بولوں تو وہ ایسا کر گزریں گے۔ لیکن اللہ کی قسم ! میں کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں بولوں گا۔‘‘
آپ سے یہ کلام بہت تفصیل کیساتھ منقول ہے لگتا ہے کہ زیادہ تفصیل شعبی کے علاوہ کسی دوسرے عالم سے نقل کی ہے ۔
ابن شاہین [1]رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ اللطف في السنۃ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ہم سے محمد بن القاسم بن ہارون نے بیان کیا‘ وہ کہتے ہیں : ہم سے احمد بن ولید واسطی نے بیان کیا ؛ وہ کہتے ہیں : ہم سے جعفر بن نصیر الطوسی الواسطی نے بیان کیا ‘ وہ عبد الرحمن بن مالک بن مغول سے روایت کرتے ہیں ‘ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : مجھ سے شعبی نے کہا :
’’میں تمہیں گمراہ کرنے والی ہوا پرستی سے خبر دار کرتا ہوں اوران میں سب سے بڑھ کر برے رافضی ہیں ۔یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے خوف سے اور ثواب کی امید پر اسلام میں داخل نہیں ہوئے لیکن اہل اسلام سے بیزاری اور ان پر سرکشی کرتے ہوئے اسلام میں داخل ہوئے؛بلکہ اہل اسلام سے انتقام لینے کیلئے اسلام کا اظہار کرنے لگے ۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں آگ میں جلایا تھااور انہیں شہروں سے نکال دیا تھا۔ انہی میں سے ایک عبد اللہ بن سباء یہودی تھا جوکہ صنعاء کے یہود میں
[1] حسن بن موسی نو بختی کا تعلق کبار شیعہ امامیہ علماء سے تھا۔اس نے اپنی کتاب’’فرق الشیعہ ص ۱۹ ‘‘ میں کہا ہے: ’’جب حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل ہوگئے تو جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منصوص امام مانتے تھے؛ وہ تین گروہوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے ایک فرقے نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ آپ نہ ہی قتل ہوئے ہیں اور نہ ہی مرے ہیں ؛ اور نہ ہی قتل ہوں گے اورنہ ہی مریں گے جب تک کہ سارے عرب کو اپنی لاٹھی سے ہانک نہ لیں ۔اورزمین کو عدل و انصاف سے ایسے نہ بھر لیں جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وقف کا کہنے والا آپ کی امت میں یہ پہلا فرقہ ہے۔ اور یہی وہ لوگ تھے؛ جنہوں نے سب سے پہلے غلو کا عقیدہ اختیار کیا۔ اس فرقے کو سبائیہ بھی کہا جاتاہے؛ جو عبداللہ بن سبا کے ساتھی تھے۔یہی وہ انسان تھا جس نے حضرت ابوبکر صدیق؛ حضرت عمر فاروق اورحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم پر طعنہ زنی کی ابتداء کی ۔ اور ان پر تبرأ کرنا شروع کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑ کر اس بارے میں پوچھا؛ تو اس نے اس بات کا اقرار کیا کہ اس نے ایسا کہا ہے۔ تو آپ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔
اہل علم کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے کہ یہ عبداللہ بن سبأ یہودی تھا؛ اس نے اسلام کا اظہار کیا؛ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کا پرچار کرنے لگا۔ جب وہ یہودی تھا تو کہا کرتا تھا کہ حضرت یوشع بن نون موسی علیہ السلام کے بعد وصی ہیں ۔تو اسلام کے بعد یہی بات وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ وصی ہیں ۔ یہ پہلا انسان ہے جس نے امامت کے فرض ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا۔ اور آپ کے مخالفین سے برأت کا اظہار کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ کے مخالفین کہتے ہیں :
’’شیعیت در اصل یہودیت سے مأخوذ ہے۔‘‘[مقالات الإسلامیین للأشعری ۱؍۸۵؛ التبصیر في (