کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 618
کے پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں ۔‘‘ اسی طرح پتھر کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنا؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کنکریوں کا تسبیح کرنا، آپ کے کھاتے ہوئے کھانے کا تسبیح کرنا۔ جب اللہ تعالیٰ کا کلام اس کے غیر میں پیداشدہ مخلوق ہی ہوتا ہے؛ تو یہ سب اللہ تعالیٰ کا کلام ٹھہرا کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ دوسری مخلوق میں پیدا کیا ہے۔ایسے ہی جب ہاتھ کلام کریں گے تو لازم ہے یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہو۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے کلام کے لیے درخت میں کلام تخلیق کیا۔ جب اس بات کے خلاف دلیل ثابت ہو گئی کہ بندوں کے افعال و اقوال اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور وہی ہر ناطق کو قوت گویائی بخشنے والا ہے؛ تو اس سے واجب ٹھہراکہ ہرموجود کلام اسی کا کلام ہو۔جھمیہ میں سے حلولیہ کا یہی عقیدہ ہے جیسا کہ ’’ الفصوص‘‘کے مصنف ابن عربی کا عقیدہ ہے؛ وہ کہتا ہے: ’’وکل کلام فی الوجود کلامہ سواء ً علینا نثرہ ونظامہ۔‘‘ ’’وجود میں ہر کلام اسی کا کلام ہے خواہ ہم اس کو نظم میں بیان کریں یا نثر میں ۔‘‘[1] تو پھر اس طرح فرعون کایہ کہنا کہ:﴿اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی﴾(نازعات 24)بھی اللہ تعالیٰ کا کلام ہوا۔ جیسے درخت میں مخلوق کلام:﴿اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا﴾ (طہ 14)کلام اللہ ہے۔ یہ کہتے ہیں : درخت وغیرہ میں مخلوق کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اسی طرح جو انبیاء علیہم السلام نے لوگوں سے خطاب کیا، انہیں خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛ اس نے ندادی؛ اس نے سرگوشی کی؛ اس نے کہا؛ انہیں تو سمجھ نہ آئی کہ یہ سب اللہ تعالیٰ سے جداگانہ مخلوقات ہیں بلکہ انہوں نے یہی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے بذات خود کلام کیا۔ یہ کلام اس کے ساتھ قائم ہے نہ کہ غیر کے ساتھ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غیر ناطق معبود کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُھُمْ وَ لَا یَھْدِیْھِمْ سَبِیْلًا ﴾(اعراف 148) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا اور نہ ہی راہ دیکھا سکتا ہے۔‘‘ ’’کسی شے کے متکلم ہو نے یا نہ ہونے کی مدح و ذم تبھی ہو گی جب کلام اس کے ساتھ قائم ہو گا۔‘‘ مختصراً لغت اور عقل ایسامتکلم اور قائل معلوم نہیں ہوسکاجس کے ساتھ کلام یا قول قائم نہ ہو؛نہ کسی کی عقل میں ؛ اور نہ ہی کسی کی لغت میں ؛ نہ ہی انبیاء علیہم السلام اور دیگر کی لغت میں ۔ اور نہ ہی کسی کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ کوئی متکلم ایسا کلام کرے جو اس کے ساتھ قائم نہ ہو۔ بلکہ وہ کلام اس سے جدا ہو؛ اورکسی دوسرے میں پیدا کیا گیا ہو۔ جیسا کہ بات یہ عقل میں نہیں آتی کہ کوئی چیز ایسی حرکت کے ساتھ متحرک ہے جسے اس نے اپنے
[1] ابن عربی نے اپنی کتاب ’’الفقوحات المکیہ 141؍4میں نقل کیا ہے مطبوعہ، مصطفی حلبی، دارالکتب العربیہ، قاھرہ 1329۔