کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 616
کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں اور نہ ہی ائمہ اھل بیت سے منقول ہیں ۔ بس ان کے خیال میں عقل ان پر دلالت کرتی ہے؛ جیسے کہ معتزلہ کہتے ہیں ۔حقیقت یہی ہے کہ عدل اور توحید کے عقیدہ میں معتزلہ ان کے اکابر و ائمہ ہیں ۔یہ سمجھتے ہیں ہم نے شرائع دینیہ ائمہ سے حاصل کی ہیں ۔ ان کی شرائع سے مراد غالباً اھل سنت کی موافقت ہوتی ہے (یا بعض اہل سنت کی موافقت مراد ہوتی ہے)۔ ان کے تفردات بدترین ہیں جن پر کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی۔ ان کے مذاھب اربعہ سے تفردات ہیں ۔ جو حقیقت میں غیر اربعہ کے قول ہیں ۔ سلف اھل ظاہر معتزلی فقہاء وغیرہ کے۔ یہ اور اس طرح دیگر اجتہادی مسائل ان میں تفرد آسان بات ہے؛ بخلاف ایسے شذوذ کے جس کی کوئی دلیل کتاب و سنت سے نہیں ملتی؛ اور نہی ہی ان سے پہلے کسی نے یہ بات کہی ہے۔ علماء اسلالم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ حق ان چار ائمہ:جیسے امام ابو حنیفہ ؛ امام مالک ؛ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تک ہی محصور ہے ؛جیسا کہ شیعہ اہل سنت پر جھوٹاالزم لگاتے ہوئے یہ قول منسوب کرتیہیں کہ : اہل سنت کہتے ہیں کہ: حق ان چار میں محصور ہے۔بلکہ اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ جس مسئلہ میں مسلمانوں کا اختلاف ہو؛ اسے اللہ تعالیٰ اور رسول کی طرف لوٹانا واجب ہے۔ بسا اوقات اقوال صحابہ اور آثار تابعین رحمہم اللہ میں کوئی ایسا قول ہوتا ہے جو ائمہ اربعہ کے اقوال کے خلاف ہوتا ہے۔ جبکہ ان ائمہ اربعہ کا قول ثوری ، اوزاعی، لیت بن سعد، اسحاق بن راھویہ وغیرہ کے قول سے زیادہ درست ہوتا ہے۔
شیعہ جب ان بعض اقوال میں سے کسی ایک راجح قول کے موافق بات کرتے ہیں ؛ تو اس مسئلہ میں ان کا قول راجح ہو جاتا ہے۔ان کا کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں جس میں انہوں نے تمام اہل سنت خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے قائلین کی مخالفت کی ہو؛ اور اس میں وہ حق پر ہوں ؛ بلکہ ان کا قول فاسد ٹھہرتا ہے۔ یہی حال معتزلہ اور دیگر تمام گروہوں جیسے اشاعرہ اورکرامیہ ؛ سالمیہ وغیرہ کا بھی ہے۔ان کا کوئی ایک بھی انفرادی قول ایسا نہیں ہے جس میں یہ امت کے برعکس ہوں ؛مگر وہ قول فاسد ہوتا ہے۔ حق قول وہی ہے جو سلف سے مأثور ہے؛ اور اس کو قبول کرنے میں ہم دیگر تمام گروہوں پر سبقت رکھتے ہیں ۔
جب یہ مذاھب معلوم ہو گئے؛ تو پوچھا جائے گاکہ:’’ آپ کے قول ’’ان امرہ و نھیہ واخبارہ حادث لاستحالۃ امر المعدوم ونھیہ واخبارہ‘‘ میں آپ کی مراد حادث فی ذاتہ ہے یا اس سے منفصل ہے۔ پہلا قول شیعہ متقدمین، جھمیہ، مرجئہ، کرامیہ اور بہت سے اھل الحدیث اور دیگر حضرات کا ہے۔
٭ پھر جب یہ کہا گیا کہ :’’ حادث ہے‘‘ تو کیا وہ ’’حادث نوع ‘‘ہے؛تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ پہلے کلام نہیں کرتا تھا؛ بعد میں کلام کرنے لگ گیا۔‘‘ یاوہ ’’حادث الافراد ‘‘ ہے؛یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہتا ہے بولتا ہے۔اوروہ کلام جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیا گیا؛اگروہ حادث ہے تو اس کے کلام کی قسم قدیم ہے؛ جس سے وہ ہمیشہ موصوف رہا ہے۔ یہ تینوں اقسام آپ کے قول کے تحت آتی ہیں ۔ اور