کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 615
بشر المریسیّ والرد علی الجھمیہ از عبدالرحمن بن ابوحاتم۔ السنہ از عبداللہ بن امام احمد [1] اور ابوبکر اثرم[2]اور خلال کی۔ خلق افعال العباد از امام بخاری رحمہ اللہ ؛ التوحید، ابوبکر بن خزیمہ [3]؛کتاب السنہ لابی القاسم الطبرانی ؛ اور از ابو الشیخ الاصفہانی ؛ اور از عبداللہ بن مندہ ؛ اور اسماء و صفات از ابوبکرالبیہقی رحمہم اللہ ۔اور ابو ذر الہروی کی : السنہ؛ اور الابانہ، ابن بطہ، شرح اصول السنہ ابوالقاسم لال کائی (۳۳) السنہ ابوحفص بن شاھین ، اصول السنۃ ابوعمر طلمنکی۔ لیکن بعد میں آنے والے متاخرین نے آخری سات اقوال میں بحث کی ہے۔ پہلے دو اقوال میں سے پہلا قول دھریہ فلاسفہ کا ہے جو عالم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں ۔ صائبہ اور فلاسفہ وغیرہ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ دوسرا قول معتزلہ سے جھمیہ اور ان کے ہم خیال نجاریہ؛ ضراریہ کاہے۔جبکہ شیعہ کا اس مسئلہ میں اختلاف گزر چکا ہے۔ ان کے قدماء قرآن کو غیر مخلوق کہتے تھے جیسے اھل سنت اور اہل الحدیث کا عقیدہ ہے۔ یہی قول اہل بیت مثلاً حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ابوجعفر الباقر، جعفر بن محمد الصادق رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے۔ اسی وجہ سے امامیہ کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ قرآن مخلوق ہے۔ جب انہیں اہل بیت سے اس عقیدہ کی نفی پہنچی تو انہوں نے اسے محدث مجہول قرا ر دیا۔ اس سے ان کی مراد مخلوق ہوناہے۔ ان کے خیال میں اھل بیت سے نفی غیر مخلوق ہونے کی ہے؛ جوکہ بہت بڑا بہتان اور جھوٹ ہے۔ بلاشبہ مسلمانوں کے ہاں بالاتفاق اس معنی کی نفی ہے۔ کچھ اسے مخلوق کہتے ہیں اور کچھ غیر مخلوق۔ اہل قبلہ میں جھگڑا اس بات کا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق ہے؛ یا اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ؛جو اس نے خود کلام کیا ہے؛ اورجو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اہل بیت سے اسی بارے سوال کیا گیا۔ ورنہ اس کا جھوٹ اور بہتان ہونا ایسا مسئلہ ہے جس کے بطلان میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ۔امامیہ فرقہ کے لوگ اپنے عام اصولوں میں اہل بیت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ائمہ اھل بیت مین حضرت علی بن حسین، ابو جعفر باقر، ان کے بیٹے جعفر بن محمد الصادق، جیسا کہ کوئی دوسرا نہیں ؛ اور ان میں سے کوئی بھی رؤیت باری تعالیٰ کا منکر نہیں تھا اور نہ ہی کوئی قرآن کو مخلوق کہتا تھا؛نہ ہی کوئی تقدیر کا انکار کرتاتھا۔اور نہ ہی خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منصوص مانتا تھا۔نہ کوئی بارہ اماموں کی معصومیت کا قائل تھا؛اور نہ ہی کوئی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گالی دیتا تھا۔ ان ائمہ سے منقولات متواتر طور پر ثابت ومعروف اور موجود ہیں ۔ جن پر اہل سنت اعتماد کرتے ہیں ۔ رافضی علماء و مشائخ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ توحید، صفات اور تقدیر والے ہمارے عقائد نہ تو
[1] ابو عبدالرحمن عبداللہ بن احمد بن حنبل 290۔213، (طبقات حنابلہ 180؍1، تذکرۃ 665؍2 تاریخ الادب العربی از بروکلماز ، 313؍3۔ [2] ابوبکر احمد بن محمد ھانی طائی اسکافی اترم، متوفی 261 تقریباً، (طبقات حنابلہ 66؍1، تذکرہ 570؍2۔ [3] ابوبکر محمد بن اسحاق بن حزیمہ النیساپوری 223 تا 311، (تذکرہ 720؍2، طبقات شافعیہ 109؍3، الأعلام 235؍6۔