کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 613
کیا جائے تو قرآن ہے؛ اوراگر عبرانی میں تعبیر کیا جائے تو توراۃ ہے۔ یہ ابن کلاب اور اس کے ہم خیال اشعریوں کا عقیدہ ہے۔[1] چہارم :.... ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’یہ ازلی حروف و صفات ہیں جو ازل سے ہی مجتمع ہیں ۔ اہل کلام اور اھل حدیث کی ایک جماعت کا یہ قول ہے۔ ’’المقالات‘‘ میں اشعری نے اسے ایک جماعت سے نقل کیا ہے ۔اسے سالمیہ وغیرہ سے نقل کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک گروہ نے یہ کہا ہے یہ قدیم اصوات قاری سے سنی گئی ہیں یا بعض مسموع آواز قاری کی ہے۔جبکہ ان کے جمہور ؛جمہور عقلاء کے ساتھ ہیں ۔انہوں نے اس کا انکار کیا ہے کیونکہ یہ ضرورت کے تحت عقل کے خلاف ہے۔ پنجم :.... ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’یہ حروف او رآوازیں ہیں لیکن ان کے ساتھ کلام بعد میں کیاگیا ہے پہلے ان سے کلام نہیں کیا تھا۔ اس کا کلام فی ذاتہٖ حادث ہے جیسے اس کا فعل فی ذاتہٖ حادث ہے ۔وہ پہلے متکلم اور فاعل نہ تھا۔ یہ کرامیہ کا عقیدہ ہے۔ شیعہ میں سے ھشام بن حکم اور اس کے ہمنواؤں نے ایساہی کہا ہے۔ان میں سے کچھ کے بقول وہ حادث ہے محدث نہیں ۔ اور کچھ اسے محدث بھی کہتے ہیں ۔ المقالات میں اشعری نے دونوں اقوال نقل کیے ہیں ۔ انہوں نے ابومعاذ تومِنّی اور زھیر الاثری کا اختلاف بھی ذکر کیا ہے۔ کرامیہ حادث کہتے ہیں محدث نہیں ۔[مقالات۲؍۲۳۱ ] ششم: ....ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’وہ ہمیشہ سے متکلم ہے جب جیسے جتنا چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ یہ کلام اسی سے قائم ہے۔ وہ ایسی آواز میں کلام کرتا ہے جو سنی جاتی ہے۔ اس کے کلام کی ایک قسم ازلی اور قدیم ہے اگرچہ اس نے کسی معین آواز کو قدیم نہیں بنایا۔ یہ اھل سنت اور اھل الحدیث ائمہ سے منقول ہے۔ [امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اسی چھٹے قول کی طرف گئے ہیں ۔] ہفتم :.... ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں :’’ اس کا کلام اسی کی ذات سے قائم علم وارادے کی طرف پلٹتا ہے۔ پھر ان میں سے کچھ کہتے ہیں :وہ بذات خود ہمیشہ سے حادث رہا ہے۔ جیسے ابوالبر کات مصنف ’المعتبر‘ وغیرہ نے کہاہے۔ اور کچھ اس کے قائل نہیں ۔ المطالب العالیہ میں ابوعبداللہ رازی نے بھی اسی طرح کی بات کی ہے۔
[1] اشعری مقالات 233؍2میں لکھتے ہیں عبداللہ بن کلاب نے کہا قرآن اللہ تعالیٰ کا ایک معنی ہے، اس کا رسم حروف متغایرہ ہیں یہ قرأت قرآن ہے۔ یہ کہنا خطا ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ ہے یا اس کا کوئی حصہ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی عبارت مختلف اور متغیر ہوتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ مختلف اور متغایر نہیں جیسا کہ ہمارا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا مختلف اور متغایر ہے اور مذکورنہ مختلف ہے نہ متغایر۔ اسے اللہ تعالیٰ کا عربی کلام کہا گیا ہے کیونکہ اس کا رسم و عبارت عربی ہے۔ اس طرح عبرانی کا معاملہ ہے اسے امر، نہی اور خبر علت کی وجہ سے کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم تھا اس سے پہلے بھی کہ وہ یہ کلام کرے جسے امر کہا گیا ہے اور اس علت سے بھی پہلے متکلم تھا جسے نہی کہا گیا ہے باقی بھی ایسے سمجھو!