کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 612
۔ مقصود یہ ہے کہ حیز کا جو بھی معنی لیں ؛ نظّار کہیں گے: ’’بیشک جو ہرکے ’’حیز ‘‘ میں ہونے کا مطلب وہ تداخل نہیں ہے جس وجود میں ہی اختلاف ہے۔اس لیے کہ اس موقع پر مسئلہ تداخل میں کلام کرنے کی اب کو ئی ضرورت ہی نہیں ہے[یہ تفصیل بیان ہوچکی ہے]۔
فصل:
امر و نہی کا حادث ہونا....
[ قولہ ان امرہ ونھیہ واخبارہ حادث لاستحالۃ امر المعدوم ونھیہ واخبارہ]
٭ ان کا یہ کہنا کہ :
’’ اللہ تعالیٰ کے امرو نہی اور اخبار حادث ہیں ۔اس لیے کہ معدوم سے امر، نہی اور اخبار کا ہونا محال ہے۔‘‘
[جواب]:.... ہم کہتے ہیں :’’ یہ مسٔالہ کلام الٰہی سے متعلق ہے لوگ اس میں اضطراب کا شکار ہیں اس میں نو(۹) اقوال ہیں ۔ اصول دین اور علم کلام پر لکھی گئی عام کتب میں ان اقوال میں سے کسی نے دو، کسی نے تین کسی نے چار اور کسی نے پانچ نقل کیے ہیں ۔کیونکہ ان کی اکثریت سلف سے منقول اقوال کو نہیں جانتے۔
اول: ....کچھ کہتے ہیں :’’ کلام اللہ تعالیٰ کے معانی لوگوں کے دلوں میں جاری ہوتے ہیں ؛ کچھ کے نزدیک یہ عقل فعال سے ہو تے ہیں ؛یااس کے غیر سے۔ یہ صائبہ فلسفیوں اور ان کے موافقین کا قول ہے ؛ جیسے ابن سینا اور اس کے امثال۔ اسی طرح ان کے ساتھ فلاسفہ کے صوفی متکلمین اور وحدت الوجود کا نظریہ رکھنے والے بھی شامل ہوگئے ہیں ۔ایسے کتاب’’ المضنون بھا علی غیر أھلھا؛اور المضنون الکبیر، المضنون الصغیر اور رسالہ مشکاۃ الانوار وغیرہ کے مصنف اور ان کے امثال و ہمنوا کی کتابوں میں کچھ ایسا کلام ملتا ہے جس سے اس جانب کے اشارے ملتے ہیں ؛ جبکہ انہوں نے اپنی دوسری کتابوں میں میں اس کے برعکس لکھا ہے؛ لیکن بسا اوقات ان کا کلام ان کے موافق ہوتا ہے اور بسا اوقات مخا لف۔ آخری دور میں حدیث نبویہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے برعکس ہی پکا ہو گیا۔
دوم :.... یہ مخلوق ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے سے جدا پیدا کیا ہے۔ امامیہ، متأخرین رافضہ ، زیدیہ ، معتزلہ اورجہمیہ یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔
سوم: ....یہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے ؛ جو کہتے ہیں : اس کا ایک ہی معنی قدیم ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے یہ امر، نہی، خبر اور استخبار ہے۔ اگراسے عربی میں تعبیر