کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 611
سوا س کا مکان ثابت ہوا۔
سلف ، صحابہ بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کی بات کو سن کر خاموش رہتے جیسا کہ عبداللہ بن رواحہ کا شعر ہے:
شھدت بان وع(داللہ حق وان النار مثوی الکا فرینا
وان العرش فوق الماء طاف وفوق العرش رب العالمینا
وتحملہ ملائکہ شداد ملائکۃ الا لہ مسومینا
(یہ اشعار استیعاب از ابن عبدالبر میں ہیں اور آئندہ قصہ بھی اسی میں ہے)
’’ میں گواہی دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور آگ کا فروں کا ٹھکانہ ہے؛اور بیشک اللہ کا عرش پانی پر تیرتا رہا ہے؛ اور عرش پر رب العلمین ہے۔اس عرش کو مضبوط فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے؛ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص [مخصوص علامات والے]فرشتے ہیں ۔‘‘
٭ ایک مشہور قصہ ہے جسے کئی علماء نے ذکر کیا ہے جب ایک عالم نے اپنی کسی باندی سے وطی کی ؛تو اس کی بیوی نے اسے دیکھ لیا ۔تو وہ اسے تکلیف دینے کے لیے اس کے قریب آئی؛ مگراس نے اپنی اس حرکت کا اعتراف نہیں کیا۔ اس عورت نے کہا: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنبی کو قرآن پڑھنے سے روکا نہیں ؟ پھر[اس عالم نے ] یہ اشعار پڑھے؛ تو اس کی بیوی نے سمجھا شاید یہ قرآن ہے اور خاموش ہو گئی جب آپ کو بتایا گیا تو آپ نے اس کی تحسین کی۔‘‘
٭ بسا اوقات مکان سے مراد ایسی جگہ ہوتی ہے جو ہر طرف سے کسی چیز سے گھیری ہوئی ہو۔رہ گیا مکان سے مراد باطنی سطح مراد لی جائے ؛ یا غیر محسوس جوہر مراد لیے جائیں ؛ تو یہ فلاسفہ کا قول ہے۔ہمارے علم کی حد تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ؛تابعین عظام ؛اورمسلمان ائمہ رحمہم اللہ میں سے کسی کا قول نہیں جو مکان سے یہ معنی مراد لیتے ہوں ۔ ارسطو نے لفظ مکان سے جو معنی مراد لیا ہے وہ عرض ثابت ہے؛ لیکن عام مسلمانوں اور علماء کے ہاں اس کا یہ معنی نہیں ؛ اور نہ ہی جمہور امتوں کے آئمہ اور عوام یہ معنی مراد لیتے ہیں ۔ افلاطون جو معنی لیتے ہیں اس کا جمہور عقلاء نے خارج میں وجود ماننے سے انکار کیا ہے۔ اس کی تفصیل کسی اور جگہ بیان کریں گے۔ اسی طرح اھل نظر[مناظرین] کے ہاں اجسام میں تداخل کے قول میں اختلاف معروف ہے ۔ رازی کا تداخل کے متعلق کہنا یہ محال ہے؛ یہی مشہور مقام امتناع ہے۔ مگر کسی اھل نظر نے نہیں کہا کہ جوہر میں حیز تداخل کے معنی میں ہے۔ برابر ہے حیز کی تفسیر امر عدمی سے کی جائے جیسا کہ ائمہ کلام کے ہاں معروف ہے یا حیز کی تفسیر معقول معنی لغوی کے ساتھ کی جائے؛ جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ ﴾(انفال 16)’’ یا کسی جماعت کی طرف جگہ لینے والا ہو۔‘‘
یہ حیز جسم سے جو متحیز کو ملاتا ہے یہ عدم یا عرض نہیں ؛اورنہ ہی جو ہری عقلی ہے جس کے وجود بھی متنازع ہے