کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 610
اصل وہ ارسطوکے شاگردوں اور افلاطون کے شاگردوں کے مابین اختلاف ہے۔وہ کہتے ہیں :’’ وہ جوہر قائم بالذات ہے؛ جس میں اجسام حلول کرجاتے ہیں ۔‘‘ یہ بہت سارے متکلمین کا قول نہیں ۔ بلکہ ہر وہ چیز جو بذات خود قائم رہ سکے ان کے ہاں جسم کہلاتی ہے۔ کیونکہ ان کے ہاں جوھر جس کا جسم ہے ان کے ہاں قائم بالنفس نہیں ہوتا سوائے ان دو مواقع کے۔ ان میں سے جنہوں نے جوھر کو بغیر جسم کے ثابت کیا ہے؛ تووہ ان کے ہاں محدث ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز محدث ہے؛ عدم اس پر سبقت لے جا چکا ہے۔اس پر اھل ملت[تمام ادیان] کا اتفاق ہے؛خواہ وہ اس کی فاعلیت کے دوام کے قائل ہیں کہ اس سے ہمیشہ ایک چیز کے بعد دوسری چیز پیدا ہوتی رہتی ہے؛ یا پھر وہ اس کی فاعلیت کے دوام کے قائل نہ ہوں ۔ وہ متکلمین جوکہتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ کے ما سواجو بھی ہے؛ یا وہ جسم ہے یا قائم بالجسم ہے‘‘؛ وہ تناقض کا شکارہیں ۔ کیونکہ ان میں سے اکثر خلاء کو امر موجود ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس کی تقدیر نہیں ہوتی؛ بلکہ اس میں تقدیر فرض کی جاتی ہے۔اور خلاء وہ جوہر ہے جسے افلاطون بھی ثابت کرتا ہے۔ لیکن اھل ملل اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی قدیم وجود کو نہیں مانتے۔ کیونکہ بیشک اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور ہر مخلوق پر عدم کو سبقت حاصل ہے۔ اگر خالق کے ساتھ اس کا دوام مانا جائے؛تو اس کا ایک چیز کے بعد ایک چیز کو دائمی پیدا کرنا اس بات کی نفی نہیں کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ماسواء ہر چیز مخلوق اور محدث ہے؛ اور عدم کے بعد وجود میں آئی ہے۔ اور ایسے قدیم کا وجود ممکن نہیں جو اپنے قِدم[پراناہونے میں ] اللہ تعالیٰ کے قدم کے برابر ہو۔ بلکہ صریح عقل اس کا انکار کرتی ہے؛ اور مرسلین علیہم السلام کی اللہ سے متعلق دی ہوئی خبرکے خلاف ہے۔ جیسا کہ مناسب مقام پریہ تفصیل بیان کردی گئی ہے۔ ارسطو اور اس کے شاگرد کہتے ہیں :’’ مکان اس حاوی جسم کی باطن سطح ہے جو[گھیری ہوئی چیز کے] جسم کی ظاہری سطح سے ملا ہوتا ہے۔جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ عرض ہے۔ ٭ انہ بدیھی الاینیۃ خفی الحققیۃ (بدیہی وجود اور مخفی حقیقت کا ہونا)یعنی ان فلاسفہ کے ہاں ہے؛ مسلمان علماء کے ہاں الحمد للہ ایسا نہیں کہ اس میں سے کچھ مخفی ہو۔ بلکہ لفظ مکان سے مراد بسااوقات ایسی چیز ہوتی ہے جو اس سے اوپر ہو اور اس کی محتاج ہو۔ جیسا کہ انسان کبھی چھت کے اوپر ہوتا ہے۔ اس سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جودوسری چیز سے اوپر ہو؛ اورجس کی محتاجی نہ ہو۔ مثلاً آسمان کا فضا کے اوپر ہونا ؛فرشتوں کا زمین اور ہوا کے اوپر ہونا؛ پرندوں کا زمین کے اوپر ہونا ۔اسی سے حسان بن ثابت قول ہے: تعالیٰ علوً افوق عرش إِلھُنا....۔حضرت حسان رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اللہ تعالیٰ کا مقام اس سے بڑھ کر اور بلند و بالا تھا۔ اوریہ کہ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے سوا ہر چیز سے بے پرواہ ہے۔ اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے؛ جیسے عرش یا کوئی دیگر چیز ؛ وہ سب اسی کی محتاج ہیں ۔ اسے کسی کی محتاجی نہیں