کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 609
اختلاف ثابت ہو۔ جب اس کا جِرم[جسم] ہونا؛ مختلف نہیں ہوا تو معلوم ہوا یہ اکوان اور جھات کے اختصاص کو واجب نہیں کرتا۔ جو اکوان تقاضہ کریں گے وہی اختلاف کے حکم میں ہوں گے۔ وہ فرماتے ہیں : اگر یہ کہا جائے کہ:’’ جو ہر اکوان سے خالی نہیں ہوتا جیسے وصف تحیز سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘ تو ہم کہتے ہیں :’’ ہم نے واضح کر دیاہے کہ تحیز اس کی ذاتی صفت ہے ۔سو ہم کہتے ہیں :’’ ذاتی صفت، ذات کو لازم ٹھہراتی ہے اس کے بغیر اس کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ جوہر کا متحیز ہونا اس کی ذات یا چیز کو ثابت کرتا ہے اور اکیلے مسئلہ تحیز سے اس کا لزوم واجب ہوتا ہے جب تک کہ نفس باقی ر ہے۔جبکہ ’’ کون‘‘ ایک اسم ہے جو مختلف اجناس پر بولا جاتا ہے۔ پھر اس پر مفصل بات کی ہے۔ اس سے واضح ہوا ان کے ہاں تحیز، متحیز کے علاوہ کوئی اور اضافی چیز نہیں چہ جائیکہ وصف ثبوتی ہو۔ اگراس کی مراد امر ثبوتی ہے؛ تویہ حیز کی طرف ایک اضافی امر ہے؛ ان میں سے اکثر کے ہاں اضافی امور،عدمی ہیں ؛ جب دو موجودات کے درمیان ہوں ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک موجود اور ایک معدوم کے مابین ہو؟ ان کا یہ کہنا کہ: ’’ان الحیز اذا کان معدوماً فکیف یعقل حصول الجوھر فی المعدوم‘‘ ’’جب حیز معدوم ہو تو اس کا حصول معدوم جوہر میں کیسے تصور کیا جاسکتا ہے‘‘کے متعلق کہا جائے گا ان کے ہاں تحیز سے مراد وہ اکیلا وجود ہے جو کسی دوسرے وجود کا احاطہ نہ کرتا ہو۔ ان کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ موجود ہونے کے ساتھ معدوم بھی ہو۔ اسی طرح جو ان کی مراد نہیں جانتا ہے: کہ کیا حیز ان کے ہاں وجود ہے یا عدم؟ تو وہ کیسے کہ سکتا ہے کہ ان کے ہاں یہ بات اتفاقی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ماسواسبھی متحیز ہیں یا قائم بالمتحیزہیں ؟ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ جانتا اور ان سے بیان بھی کرتا ہے کہ:’’ ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے محدث ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ممتنع ٹھہرتا ہے کہ اللہ کے سواہر چیز یاتو متحیز ہے یا متحیر میں حلول کیے ہوئے ہے۔حالانکہ یہ متحیز اللہ تعالیٰ کے سوا وجودی حیز میں ہے؛ جوکہ محدث ہے۔ ان نظریات کا ٹکراؤ صاف ظاہر ہے کیونکہ اس سے تین موجود محدث لازم آتے ہیں : (۱) متحیز (۲) حیز (۳) قائم بالمتحیز۔ اللہ کے سوا موجودات تین ہوئیں جو ان کے ہاں محدث ہیں ۔ [اللہ کے ماسواء محتیّز یا محتیّز کے ساتھ قائم ] یہ ان کے قول:’’ إن ماسوا اللّٰہ إما متحیز وإ ما قائم بالمتحیز ‘‘کے خلاف ہے۔ میں کہتا ہوں :’’ طوسی کا یہ اعتراض کہ تحیزسے مراد مکان ہے؛یہ متکلمین کے ہاں مشہور قول نہیں ؛بلکہ ان کے ہاں مشہور ان دونوں میں فرق ہے۔‘‘اور اس نے مکان کے بارے میں جو دو اختلافی اقوال ذکر کئے ہیں ؛ در